علی امین گنڈاپور کو تقریر نہیں کرنی چاہیے،بیرسٹر سیف

 

پشاور(اُمت نیوز)مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کو تقریر نہیں کرنی چاہیے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر معذرت کر چکے ہیں، لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیر رات کے بعد علی امین سے رابطہ ہوا لیکن تفصیل سے بات نہیں ہو سکی، کل رات کو وضاحت کر دی تھی کہ ان کے ساتھ دو افراد تھے ان دو کے بھی فون بند تھے۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ جلسہ 8 کو تھا لیکن کریک ڈاؤن 7 ستمبر رات سے ہی شروع ہو گیا تھا، اسلام آباد میں پی ٹی آئی لیڈر شپ اور تنظیمی لیڈر کی پنجاب سے گرفتاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہمارے کچھ کارکنان رات کو ہی پنجاب کے علاقوں سے پہنچ گئے تھے اور چھپے ہوئے تھے، ہمارے لوگ اِدھر اُدھر چھپے ہوئے تھے تاکہ گرفتاری سے بچ سکیں۔

مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ جلسہ ناکام بنانے کے لیے پنجاب اور وفاقی حکومت نے 24 گھنٹے پہلے آپریشن شروع کر دیا تھا، چالاکی یہ تھی کہ انہوں نے این او سی 8 ستمبر کا جاری کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بہانا بنایا جا رہا ہے کہ ہم نے این او سی کی خلاف ورزی کی، انتظامیہ تمام وہ اقدامات کیے کہ این او سی پر عمل ہی نہ ہو سکے، جمہوری حقوق نہ دیے جائیں تو پھر جلسوں میں تقریر جذباتی انداز میں ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لیڈر جذبات میں نہیں لاتا کارکن خود جذباتی ہوتے ہیں، کارکن کے جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے لیڈر کا تقریر کرنا پولیٹیکل گروپ ڈائنامکس ہوتی ہیں، لیڈر شپ نے جذباتی تقاریر کیں تو نیچے کارکن بھی جذباتی تھے۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ تقریر میں بعض ایسے الفاظ استعمال کیے گئے جو نازیبا تھے، تقریر میں بعض ایسے الفاظ تھے جو کسی کی نظر میں قابل اعتراض ہو سکتے تھے، اگر قابل اعتراض الفاظ ادا ہوئے بھی ہیں تو اس کے لیے قوانین موجود ہیں۔

مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا کا مزید کہنا ہے کہ ڈیفامیشن لاء اور دیگر قوانین ہیں اس کے تحت کارروائی کر لیں، یہ نہ کریں کہ پارلیمنٹ کا اجلاس ختم ہوتے ہی ایم این ایز کو پکڑنا شروع کر دیا، پورے ملک میں ٹینشن پھیلا دی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ ایسا ماحول بنا دیا جیسے خدانخواستہ کسی غیرملکی فوج نے حملہ کر دیا ہے، ہماری جمہوری پارٹی اور تحریک ہے، ہم جدوجہد کر رہے ہیں، اس میں سیاسی اجتماعات، جلسے، جلوس اور مظاہرےبھی ہوں گے۔