اسلام آباد سمیت ملک بھر میں فلائٹ آپریشن معمول کے مطابق جاری رہے گا، فائل فوٹو
اسلام آباد سمیت ملک بھر میں فلائٹ آپریشن معمول کے مطابق جاری رہے گا، فائل فوٹو

سول ایوی ایشن نے 63 کروڑ کے واجبات چھوڑ دیے

سید نبیل اختر:
سول ایوی ایشن اتھارٹی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ رقوم ہوائی اڈوں، متصل اراضیوں، فضائی خدمات اور ایئر اسپیس استعمال کرنے پر فضائی کمپنیوں اور دیگر کرائے داروں سے وصول کی جاتی ہے۔ یہاں آمدنی زیادہ اور اخراجات انتہائی کم ہیں۔ نتیجتاً سالانہ اربوں روپے کی وصولی میں انتظامیہ ناکام رہتی ہے۔ پشاور کا باچا خان ایئرپورٹ ہو یا اسلام آباد کا نیا انٹرنیشنل ایئرپورٹ ٹھیکیدار کمپنیوں سے کروڑوں روپے کی وصولی سے گریز کیا جاتا ہے جس سے خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ہر سال درجنوں آڈٹ اعتراضات سامنے آتے ہیں جو محض انتظامی غفلت اور اقربا پروری کے سبب ہیں۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے 63 کروڑ روپے کے واجبات وصول کیے بغیر گرائونڈ ہینڈلنگ لائسنس معاہدے کی تجدید کر دی۔ جبکہ شاہین ایئرپورٹ سروسز نے 5 برس کے دوران ادائیگی سے گریز کیا۔ ایئرپورٹ منیجر نے خلاف ضابطہ 2027ء تک شاہین ایئر پورٹ سروسز سے دوبارہ سروسز حاصل کرلیں۔ طیاروں سے پارکنگ چارجز نہ لینے سے بھی خسارہ 60 کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا جس میں انکم ٹیکس محصولات بھی شامل ہیں۔

اہم ذرائع نے بتایا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی انتظامیہ نے میسرز شاہین ایئرپورٹ سروسز کو گرائونڈ ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرنے کے لیے لائسنس جاری کیا، یہ معاہدہ یکم اپریل 2017ئ￿ میں پانچ برس کے لیے کیا گیا تھا جو 31 مارچ 2022ء کو ختم ہو گیا۔ اس دوران شاہین ایئرپورٹ سروسز پر 63 کروڑ 93 لاکھ روپے کے واجبات چڑھ گئے۔ اس ادائیگی کے لیے مذکورہ ٹھیکیدار کمپنی نے اقدامات نہ کیے اور لائسنس کی مدت ختم ہونے کے بعد باچا خان ایئرپورٹ منیجر نے خلاف ضابطہ طور پر اگلے 5 برس کے لیے میسرز شاہین ایئرپورٹ سروسز کو گرائونڈ ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرنے کے لیے منتخب کر لیا۔ یہ انتخاب سی اے اے رولز کے برخلاف تھا کیونکہ مذکورہ کمپنی پر کروڑوں روپے کے واجبات تھے۔

سی اے اے رولز کے مطابق لائسنس کی تجدید کے لیے دو شرائط لازمی ہیں جن میں ٹھیکیدار کمپنی کے پاس گرائونڈ ہینڈلنگ آپریشن سرٹیفکیٹ ہو اور لائسنس کی تجدید یا حصول کے لیے ٹھیکیدار کمپنی پر کسی قسم کے کوئی واجبات نہ ہوں۔ تاہم ایئرپورٹ منیجر اور اعلیٰ انتظامیہ نے قواعد کے برخلاف گرائونڈ ہینڈلنگ لائسنس کی تجدید کر دی اور واجبات کی وصولی کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اب میسرز شاہین ایئرپورٹ سروسز کے پاس 31 مارچ 2027ء تک باچا خان ایئرپورٹ کی گرائونڈ ہینڈلنگ موجود ہے اور سی اے اے حکام کروڑوں روپے کی وصولیابی میں ناکام ہیں۔

دوسری جانب سول ایوی ایشن اتھارٹی طیاروں کی پارکنگ فیس کی مد میں 51 کروڑ 86 لاکھ 76 ہزار روپے وصول کرنے میں ناکام ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ریونیو اکائونٹنگ مینول کہتا ہے کہ ہائوسنگ اور ہینگر چارجز کی وصولی سی اے اے کے ایئرپورٹ منیجر کی ذمہ داری ہے جو ایروناٹیکل انفارمیشن پاکستان کے مجوزہ ریٹس پر طیاروں کے پارکنگ چارجز وصول کرے گا۔ اس ضمن میں ریٹس کا تعین خالی جہاز کے وزن اور جہاز کے ٹیک آف ہونے پر مسافروں سمیت وزن یا انجن کے اسٹارٹ ہونے یا بند ہونے کے وقت کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ طیاروں کے ہائوسنگ چارجز ایئرناٹیکل انفارمیشن کے تحت فی ٹن فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کیے جاتے ہیں۔

طیاروں کے ہائوسنگ چارجز کی ماہانہ رپورٹ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ سے بن کر بلنگ سیکشن بھیجی جاتی ہے۔ تاہم معلوم ہوا ہے کہ سی اے اے انتظامیہ نے محض ہائوسنگ چارجز کی مد میں فضائی کمپنیوں سے 51 کروڑ 86 لاکھ 76 ہزار روپے وصول نہیں کیے، جس سے 15 کروڑ 60 لاکھ روپے انکم ٹیکس کا اضافی بوجھ بھی سی اے اے پر پڑ رہا ہے۔ سی اے اے کے شعبہ بلنگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بدانتظامی کے باعث سی اے اے کے کروڑوں روپے خزانے میں جمع نہیں ہو پارہے اور انتظامیہ اس حوالے سے کوئی اقدام بھی نہیں اٹھا رہی۔

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اکائونٹس کھاتوں کی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ کے کسٹوڈین ایئرپورٹ منیجر کی غفلت سے خزانے کو 56 کروڑ 29 لاکھ 46 ہزار روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ رقم سندھ پولیس اور وفاقی محکموں کی جانب واجب الادا ہے جو وصول نہیں کی گئی۔ سی اے اے ایئرپورٹس کے بزنس لائسنس کی منظوری کی پالیسی کے مطابق لائسنس فیس کی وصولی ایئرپورٹ منیجر کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لائسنس فیس کی عدم ادائیگی پر ایئرپورٹ منیجر پابند ہے کہ لائسنس سے یومیہ ایک ہزار روپے یا واجب الادا رقم کا 10 فیصد وصول کرے۔ تاہم ایئرپورٹ منیجر نے وفاقی محکموں اور سندھ پولیس سے ہوائی اڈے پر سہولیات استعمال کرنے پر لائسنس فیس وصول کرنے سے گریز کیا جس کے نتیجے میں واجبات 56 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے۔

آڈٹ کے دوران مشاہدے میں آیا کہ اس ضمن میں سالانہ بنیادوں پر نشاندہی کی گئی، لیکن وصولی کے لیے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جاتا رہا۔ سول ایوی ایشن کو کروڑوں روپے نقصان پہنچنے کے بعد آڈٹ اعتراض کے جواب میں کہا کہ سی اے اے اس سلسلے میں اقدامات اٹھا رہی ہے اور وفاقی محکموں اور سندھ پولیس کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے جواب تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وفاقی محکموں اور سندھ پولیس جن اراضیوں اور سہولیات کو استعمال کررہی ہیں، اس کی مفصل رپورٹ آڈیٹر کے ساتھ شیئر کی جائے۔آڈیٹر جنرل نے یہ بھی سفارش کی کہ تمام محکموں سے وصولی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور رپورٹ آڈیٹر جنرل کو بھیجی جائے۔ لیکن سی اے اے حکام نے 2024ء کی آڈٹ رپورٹ شائع ہونے تک آڈٹ حکام کو جواب داخل نہیں کیا۔

دوسری جانب نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے 31 ارب 24 کروڑ 80 لاکھ روپے کے پروجیکٹ میں ٹھیکیدار کو 43 کروڑ 13 لاکھ 99 ہزار روپے کی ایسی ادائیگی کی گئی جس کے دستاویزات اور تکمیل پروجیکٹ کی رپورٹ سی اے اے حکام کو جمع نہیں کرائی گئی تھی۔ ریکارڈ کی چھان بین کے دوران پتا چلا کہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے پسنجر ٹرمینل بلڈنگ پیکج تھری کے لیے 43 کروڑ سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔

مشاہدے میں آیا کہ یہ کہیں سے ثابت نہ ہو سکا کہ ٹھیکیدار کمنپی سے او اینڈ ایم مینول، اسپیئر پارٹس، ٹولز، اسائنمنٹ کی تکمیل کی رپورٹ، سسٹم ٹیسٹنگ اینڈ کمیشننگ، شاپ ڈرائنگز، مینٹی نینس، معائنہ رپورٹس حاصل کرنے کے بعد سی اے اے نے ادائیگیاں کیں۔ انتظامیہ نے جواب میں بتایا کہ ٹھیکیدار کو فائنل ادائیگی نہیں کی گئی ہے اور بہت سارے کاموں کی ادائیگیاں کرنا باقی ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے ادائیگی کو غیرقانونی اور خلاف ضابطہ قرار دیا اور سی اے اے کے جواب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ آڈیٹر نے یہ بھی کہا کہ ٹھیکیدار کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی اور سی اے اے کی جانب سے دستاویزات کے بغیر ادائیگیاں خزانے کا نقصان ہیں۔