فال فوٹو
فال فوٹو

تخت یا تختہ، سیاسی دنگل کا فیصلہ کن معرکہ شروع

امت رپورٹ:

عدلیہ اور حکومت کے مابین جو دنگل جاری ہے، لگتا ہے کہ وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور اب تخت یا تختہ والی ’’جنگ‘‘ ہورہی ہے۔ تخت یا تختہ والی لڑائی میں سرخرو کون ہوگا؟ اس حوالے سے دوسے تین منظر نامے یا سیناریوز ہیں۔

ایک سیناریو یہ ہے کہ چیف جسٹس کے علم میں لائے بغیر عدالتی قواعد و ضوابط کے برخلاف وضاحتی حکمنامہ جاری کرنے والے آٹھ ججز کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کا امکان کم ہے۔ کیونکہ نئی صورتحال میں یہ تفصیلی فیصلہ بظاہر بے کار یا غیر موثر ہوگا کہ نئے حکومتی قانون کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کو فارغ کردیا ہے اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی لسٹ میں پی ٹی آئی کا وجود نہیں، اسّی سیٹوں کو سنی اتحاد کونسل کا ظاہر کیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسپیکر کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل ہے، یعنی سپریم کورٹ کے متعلقہ آٹھ ججز ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔ اب اگر مخصوص نشستوں کے حوالے سے آٹھ رکنی بنچ کا تفصیلی فیصلہ آتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں مختصر فیصلے کی تائید ہوگی، جسے اسپیکر قومی اسمبلی مسترد کرچکے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ پچھلی تاریخوں کے تحت جو قانون رائج ہوچکا ہے اس کے مطابق اسّی ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ سنی اتحاد کونسل سے ہے اور اس پر عملدرآمد کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہا کہ وہ بھی اس قانون پر عمل کرتے ہوئے پی ٹی آئی سے منسوب قومی اسمبلی کی تئیس مخصوص سیٹیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم کرے، جیسا کہ اس سے پہلے یہ سیٹیں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کو دے دی گئی تھیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ کے فیصلے پر نہیں بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے پر عمل کرے گا ۔ غالباً الیکشن کمیشن کو اب صرف آئینی ترامیم کا انتظار ہے۔ آئینی ترامیم آنے کی صورت میں سپریم کورٹ کے متعلقہ ججز اور مخصوص نشستوں سے متعلق ان کے حکمنامے خودبخود غیر موثر ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم میں آئینی عدالت کا قیام پہلی ترجیح ہے۔ جس میں تمام آئینی اور سیاسی مقدمات چلائے جائیں گے۔ سپریم کورٹ صرف فوجداری اور جائیدادوں سے متعلق عام لوگوں کے مقدمات سنے گی۔ اگر آئینی عدالت بن جاتی ہے تو پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں والا کیس بھی لامحالہ آئینی کورٹ ہی سنے گا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آئینی عدالت کے قیام کے بعد فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر التوا کیس بھی آئینی عدالت کو منتقل ہوجائے گا، جو یقینا پی ٹی آئی اور اس کے بانی عمران خان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

اسی سیناریو سے جڑا ایک سیناریو اور ہے، وہ یہ کہ اگر اسپیکر قومی اسمبلی کے خط کے جواب میں الیکشن کمیشن پاکستان مخصوص سیٹوں سے متعلق اپنا پرانا نوٹیفکیشن بحال کردیتا ہے تو پھر پی ٹی آئی سے منسوب مخصوص سیٹوں کی بڑی تعداد حکمراں اتحادی پارٹیوں کو واپس مل جائے گی۔ یوں حکومت کو آئینی ترامیم کے لئے کم از کم قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ اس کے بعد صرف سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لئے حکومت کو پانچ ووٹ درکار ہوں گے۔ اس کے لئے مولانا فضل الرحمن سے تاحال بیک ڈور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

تاہم ان معاملات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا نہ مانے تو سینیٹ میں بھی ان کی مدد کے بغیر حکومت مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک آپشن جوڑ توڑ اور خریدوفروخت کا ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں کیا تھا۔ ان ذرائع کے بقول بیان کردہ متوقع سیناریو کے نتیجے میں گزشتہ چند روز سے مولانا کی سیاست جو آسمان سے باتیں کر رہی تھی، وہ نیچے آرہی ہے اور مزید نیچے آجائے گی۔ اسے حکومت کا پلان ’’بی ‘‘کہا جاسکتا ہے ، جس پر مولانا کے آمادہ نہ ہونے کی صورت میں عمل کیا جائے گا۔

ایک سیناریو یہ ہے کہ خصوصی نشستوں پر وضاحتی آرڈر دینے والے سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کی جانب سے انتہائی ردعمل آسکتا ہے۔ کیونکہ چیف جسٹس کو لاعلم رکھ کر عدالتی قواعد و ضوابط کے خلاف وزارتی حکم نامے کو ایک Desperate Act (مایوس کن عمل) کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ایسا مایوس کن قدم تب ہی اٹھایا جاتا ہے، جب ڈسپریشن عروج پر ہو۔ یہ خارج از امکان نہیں کہ اسی ڈسپریشن میں متعلقہ آٹھ ججز کی جانب سے کوئی اور دوسرا قدم اٹھالیا جائے۔ تاہم یہ ردعمل عدالتی پیرا میٹر میں نہیں آسکتا۔ اس کا بندوبست حکومت نے فوری پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں ترامیم کرکے بظاہر کرلیا ہے۔

اس حکومتی قانون پر چیف جسٹس پاکستان نے بھی فوری عمل کرتے ہوئے بنچ بنانے کا اختیار رکھنے والی تین رکنی کمیٹی کی ساخت تبدیل کردی۔ اب بنچ بنانے والی کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ اس صورت میں آٹھ رکنی ہم خیال ججز اپنے طور پر عدالت نہیں سجا سکتے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ عمل جوڈیشل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گا اور ان کا معاملہ کارروائی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا جاسکتا ہے۔

کہا جارہاہے کہ متعلقہ ہم خیال ججز مشترکہ پریس کانفرنس کرسکتے ہیں یا کورٹ نمبر ٹو میں اپنی الگ عدالت لگا سکتے ہیں۔ کیونکہ جب انسان ڈسپریٹ ہوتاہے تو اس کی جانب سے کوئی بھی انتہائی قدم خارج از امکان نہیں ہوتا۔ لیکن پریس کانفرنس یا الگ عدالت لگانے کے امکانات نہایت معدوم ہیں۔ ایسے انتہائی قدم بھی جوڈیشل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آئے گا اور کارروائی کے لئے معاملہ سپریم جوڈیشل کمیشن جاسکتا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نئے حکومتی قانون کے تحت پی ٹی آئی کو فارغ کرنے کے بعد ہم خیال آٹھ ججز کی جانب سے متوقع تفصیلی فیصلہ تو پہلے ہی غیر موثر ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے رجسٹرار کو لکھے جانے والے خط نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ اس خط سے آٹھ رکنی ججز کے وضاحتی حکمنامے کی قانونی حیثیت چیلنج ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر آٹھ ججوں کے وضاحتی حکمنامے کے بارے میں رجسٹرار سے جواب طلب کیا ہے۔ بذریعہ خط رجسٹرار سے نو سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کے لئے مقرر ہوئیں؟ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کس کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟ درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لئے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟ آرڈر سنانے کے لئے کمرہ عدالت میں فکس کیوں نہ کیا گیا؟ اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر ویب سائٹ پر کیسے اپ لوڈ ہوا؟ آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا آرڈر کس نے دیا؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ رجسٹرار ایک بیوروکریٹ ہونے کے ناطے سارے حقائق کھل کر بیان کردے گا کہ اس معاملے میں کون کون شامل تھا۔ عدالتی رولز کو بائی پاس کرکے وضاحتی آرڈر کہاں اور کس نے لکھوایا۔ اس صورت میں آٹھ ججز کے خلاف ایک نیا پینڈورا باکس کھل سکتا ہے۔

ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو پاکستان کی ستتر سالہ تاریخ میں جب بھی عدلیہ اور پارلیمنٹ (حکومت) آمنے سامنے آئے ہیں تو زیادہ تر عدلیہ کو فتح ملی ہے۔ تاہم اس سے قبل عموماً اسٹیبلشمنٹ کا وزن عدلیہ کے پلڑے میں ہوتا تھا، جو اسے پارلیمنٹ یا حکومت کے خلاف سرخرو کرانے میں بنیادی رول ادا کرتی تھی۔

موجودہ سیاسی سیناریو میں شاید یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور سپریم کورٹ کے موجودہ ججز کی زیادہ تعداد فی الوقت دوسری طرف کھڑی ہے۔ لہٰذا جو سیاسی دنگل فیصلہ کن معرکے کی طرف بڑھ رہا ہے اس میں تخت یا تختہ کی ’’جنگ ‘‘ میں کامیابی بظاہر تخت یعنی حکومت کی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں حتمی طور پر واضح ہوجائے گا کہ تخت یا تختہ کے معرکے میں سرخرو کون ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔