عمران خان:
پاکستان سے اعلیٰ قسم کا چاول ایران اور افغانستان اسمگل کرنے والی مافیا کے حوالے سے وقتاً فوقتاً شواہد سامنے آنے کے باجود یہ مافیا آج تک پوری طرح سے اداروں کی گرفت میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ معروف بزنس گروپوں، درجنوں رائس ملز مالکان، اناج منڈیوں کے آڑھتیوں اور اسمگلروں پر مشتمل یہ نیٹ ورک گزشتہ 2 دھائیوں سے پاکستان کو نہ صرف سالانہ اربوں ڈالرز کے زر مبادلہ سے محروم کر رہاہے بلکہ ملک میں اناج کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کے ساتھ ہی ٹیکس چوری اور ذخیرہ اندوزی کرکے اربوں روپے کا سالانہ ناجائز منافع بٹورنے میں مصروف ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ دنوں اسی مافیا کی جانب سے ڈالی گئی ایک اور بڑی واردات اس وقت سامنے آئی جب کسٹمز حکام کی جانب سے پاک افغان چمن بارڈر پر پاکستان سے ایکسپورٹ کئے جانے والے کیمیکل کی آڑ میں ہزاروں ٹن چاولوں کی کھیپ پکڑلی گئی۔ مذکورہ کھیپ پاکستان کے معروف بزنس گروپ ستارہ کیمیکل انڈسٹریز کے نام پر بھجوائی جا رہی تھی اور اس کھیپ کو کلیئر کروانے کی ذمے داری ستارہ گروپ آف کمپنیز کے کلیئرنگ ایجنٹ شرف الدین برادرز کو دی گئی تھی۔
کسٹمز حکام سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق ستارہ گروپ آف کمپنیز کی اس بڑی کھیپ میں ’’کاسٹک سوڈا فلیکس‘‘ ظاہر کیا گیا۔ مجموعی طور پر کلیئرنگ ایجنٹ شرف الدین برادرز کے ذریعے ڈالی جانے والی گڈز ڈکلریشن میں اس کی مالیت ایک لاکھ ڈالر یعنی لگ بھک پونے 3 کروڑ روپے ظاہر کی گئی۔ تاہم کسٹمز کلکٹریٹس کے حکام کی جانب سے شک ہونے پر جب 25،25 کلو کی 2 ہزار بوریوں پر مشتمل اس کھیپ کا معائنہ کیا گیا تو اس میں سے کاسٹک سوڈا فلیکس کے بجائے اعلیٰ کوالٹی کے چاول بر آمد ہوئے جن کو کیمیکل کی آڑ میں افغانستان بھجوایا جا رہا تھا۔
مذکورہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ستارہ گروپ آف کمپنیز کی اس کھیپ کی کلیئرنس کو روک کر اس کو بلاک کردیا گیا۔ جبکہ کلیئرنگ ایجنٹ شرف الدین برادرز اور کمپنی انتظامیہ سے مزید چھان بین شروع کردی گئی۔ اس مجموعی کھیپ میں کروڑوں روپے مالیت کی ٹیکس چوری کی جا رہی تھی جبکہ ہزاروں ٹن چاول ملک سے بغیر دستاویزی ریکارڈ کے بیرون ملک منتقل کئے جا رہے تھے جس کو کسٹمز کی تکنیکی زبان میں انڈر انوائسنگ کہتے ہیں۔ تاہم عرف عام میںیہ جرم اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔
کسٹمز ذرائع کے بقول چونکہ ملک کے بڑے بزنس گروپوں کو ان کے اثر رسوخ کی وجہ سے اور ملک میں کاروبار کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جس میں ایف بی آر اور کسٹمز حکام کی جانب سے ان کی کمپنیوں کے لئے بیرون ملک آنے اور جانے والے سامان کی تیز ترین اور سہل کلیئرنس کے لئے انہیں زیادہ تر گرین چینل کا اسٹیٹس دیا جاتا ہے۔ یعنی ان کمپنیوں کی جانب سے منگوائی جانے والی اور باہر بھجوائی جانے والی کھیپوں کی زیادہ چھان بین نہیں کی جاتی اور ان کی ساکھ کی وجہ سے بعض اوقات بڑے اسمگلر بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے کئی واقعات کراچی میں پورٹ قاسم کلکٹریٹ، ایس اے پی ٹی کلکٹریٹ ،ایسٹ اور ویسٹ کلکٹریٹس سے ہونے والی گرین چینل کے ذریعے امپورٹ اور ایکسپورٹ میں پیش آچکے ہیں جن پر کئی کیس بنائے گئے ہیں تاہم زیادہ تر معاملات کو اثر رسوخ کی وجہ سے دبا دیا جاتا ہے۔ دستیاب دستاویزات سے انکشاف ہو اہے کہ یہ نیٹ ورک گزشتہ دو دھائیوں سے سرگرم ہے۔
کچھ عرصہ قبل کراچی سے بلوچستان کے راستے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک چلنے والے ایسے ہی نیٹ ورک کے شواہد اس وقت ایف آئی اے کو موصول ہوئے جب ایک کارروائی میں گرفتار ہونے والے ملزمان نے تحقیقات میں انکشاف کیا کہ وہ پاکستان سے یومیہ بنیادوں پر ہزاروں ٹن چاول ،گندم اور یوریا کھاد ایران اسمگل کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے عوض ایران سے ڈیزل اور پٹرول منگوایا جاتا ہے۔ اس نیٹ ورک کے اہم کردار سے ہونے والی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ پٹرول اور ڈیزل کے بدلے میں ایرانی اسمگلر، چاول اور گندم بھجوانے پر اصرار کرتے تھے۔ کیونکہ اس میں ان کو زیادہ منافع ملتا تھا۔ بعد ازاں جب پاکستان میں موجود ملز مالکان اور آڑھتیوں کو اناج کے پیسے پاکستان سے زیادہ ایران سے ملنے لگے تو ان کے منہ کو بھی خون لگ گیا اور یہ باقاعدہ اسمگلنگ نیٹ ورک حصہ بن گئے۔ اس کیس میں ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کی ٹیم نے ملیر کے علاقے سے بھی گرفتاریاں کیں جن کے کچھ ساتھی لیاری میں مقیم تھے۔
انہوں نے مویشیوں کے کاروبار کے حوالے سے کمپنی رجسٹرد کروا رکھی تھی۔ تاہم جب ان کے بینک اکائونٹس کے لین دین کو چیک کیا گیا تو ابتدائی طور پر 8 ارب روپے کے لین دین کا ڈیٹا ملا جو بہت زیادہ تھا۔ رقوم کی لین دین کا ریکارڈ ایران اور بلوچستان کے علاوہ پنجاب کی 25 رائس ملز مالکان سے بھی مل گیا تھا، جنہیں بعد ازاں نوٹس ارسال کرکے تفتیش میں شامل ہونے کی ہدایات دی گئیں۔ بعد ازاں یہ کیس سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ اور یہ نیٹ ورک آج بھی اسی انداز میں سرگرم ہے۔
دستیاب دستاویزت کے مطابق تحقیقات انکشاف ہوا کہ چاہ بہار سے اربوں روپے کراچی کے علاقے ملیر میں قائم بینکوں کے 5 اکائونٹس میں منتقل ہوتے رہے۔ ملیر میں موجود بینک اکائونٹس میں اربوں روپے گوادر، تربت اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں قائم بینکوں سے حاصل کردہ آر ٹی سی یعنی روپیز ٹریول چیک کی مدد سے جمع کروائے جاتے رہے۔ یہ اربوں روپے پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود درجنوں افراد کے بینک اکائونٹس میں منتقل ہوئے۔ اس ضمن میں ذرائع سے معلوم ہوا کہ ایران سے پاکستان میں چلنے والے اس نیٹ ورک کے خلاف ایف آئی اے کو مشکوک بینک ٹرانزیکشن کی صورت میں اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ جس پر ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں انکوائری شروع کی گئی تو انکشاف ہوا کہ چاہ بہار اسمگلنگ نیٹ ورک میں ایرانی تیل پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے اور اسی کے عیوض پاکستان سے چاول ،آٹا ،گنا اور کپاس سمیت دیگر اشیا غیر قانونی طور پر ایران منتقل ہوتی رہیں۔ اسمگلنگ نیٹ ورک کی رقم دہشت گردی میں استعمال ہونے کی علیحدہ سے تحقیقات کی سفارش بھی کی گئی۔