دھندے میں ملوث کاریگر مختلف اقسام کے سافٹ ویئر استعمال کر رہے ہیں، فائل فوٹو
 دھندے میں ملوث کاریگر مختلف اقسام کے سافٹ ویئر استعمال کر رہے ہیں، فائل فوٹو

موبائل فون ڈیٹا چُرانے کی وارداتیں بڑھ گئیں

عمران خان :
موبائل فون فروخت کرنے یا ریپیئرنگ کے لئے دینے والے شہری احتیاط سے کام لیں۔ موبائل ریپیئرنگ، فروخت ہونے، چوری ہونے اور چھینے جانے کے بعد شہریوں کے موبائل فونز سے ڈیٹا چوری کرنے کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ موبائل مارکیٹوں اور گلی محلوں کی دکانوں میں موجود کئی کاریگر مختلف قسم کے سافٹ ویئر استعمال کرکے پہلے موبائل کو ڈیٹا ریکوری پر لگاتے ہیں۔ سارا ڈیٹا نچوڑنے کے بعد اس کو ری فریش کرتے ہیں۔ سافٹ ویئر کے ذریعے فیکٹری ری اسٹور کر کے موبائل بیچنے والوں کا ڈیٹا بھی ریکور کر لیا جاتا ہے۔

امت کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اور کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ذرائع سے متعدد ایسی معلومات موصول ہوئیں ہیں جن کے مطابق اس زیر استعمال موبائل فروخت کرنے والے یا ری پیئرنگ کے لئے دینے والے شہریوں کے موبائل فونز سے ان کا حساس نجی ڈیٹا چوری ہونے کے واقعات سامنے کی تعداد بڑھی ہے ۔کچھ واقعات میں یہ ڈیٹا شہریوں خصوصی طور پر خواتین کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور موبائل چوری ہونے یا چھینے جانے کے کچھ واقعات کے بعد شہریوں کے اہم اکائونٹس کے پاس ورڈ اور پن کوڈ بھی چوری کرکے ان کو مالیاتی نقصان بھی پہنچایا گیا ۔

کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کے مطابق گزشتہ دنوں موبائل چھیننے والے ایک گروپ کے خلاف تحقیقات میں تفتیش کا سرا موبائل مارکیٹوں میں موجود ایک ایسے نیٹ ورک تک پہنچا جو کہ چھینے گئے اور چوری کئے گئے موبائل خریدنے میں ملوث تھا ۔اس نیٹ ورک کے کچھ کارندے چھاپوں میں حراست میں لئے گئے جب ان سے تفتیش کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ان کے کاریگر ایسے سافت ویئر استعمال کرر رہے تھے جوکہ موبائلوں کے آئی ایم ای آئی نمبرز تبدیل کرنے کے ساتھ ہی ان میں موجود شہریوں کا حساس اور نجی ڈیٹا بشمول وڈیوز ،آڈیوز ،واٹس ایپ چیٹ اور گیلری وغیرہ کا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کر رہے تھے اور اس ڈیٹا کو کھنگال کر ان میں سے حساس ڈیٹا الگ کرکے فولڈرز میں رکھ رہے تھے ۔

اسی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ یہی سافٹ ویئر موبائل فروخت کرنے اور ری پیئرنگ کے لئے دینے والے شہریوں کے موبائل فونز سے ڈیٹا ریکور کرنے کے لئے بھی استعمال کئے جا رہے تھے ۔تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ مذکورہ دکانوں پر استعمال ہونے والے سافٹ ویئر آن لائن کمپنیوں سے دبئی وغیرہ میں ادائیگیاں کرکے خریدے جاتے ہیں اور ان کا بیلنس ختم ہونے کے بعد دبئی میں ہی ان کو ری چارج کرکے کراچی کی دکانوں پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

دوسری جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ حالیہ برسوں میں ایسی شکایتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں شہریوں کی جانب سے درخواستیں دی گئی ہیں کہ انہوں نے اپنے موبائل ری پیئرنگ کے لئے دکانوں پر دئے تاہم اس کے بعد ان کا ڈیٹا جن میں ان کی وڈیوز اور آڈیوز شامل تھیں وہ بلیک میلروں کے ہاتھ لگ گئیں جنہوں نے بعد ازاں ان کو بلیک میل کرکے اچھی خاصی رقوم لوٹی۔

ایسے ہی ایک واقعہ کے حوالے سے سائبر کرائم ونگ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ شاہ فیصل کالونی کراچی کی ایک رہائشی خاتون کی جانب سے ایک درخواست دی گئی جس میں اس نے بتایا کہ اس نے اپنا موبائل مرمت کے لئے دکان پر دیا جس کے بعد اس کے حساس ڈیٹا چوری کرنے کے بعد مختلف نمبروں سے اس کو بلیک میل کیا جانے لگا۔ بعد ازاں خاتون کی نجی معلومات کو بلیک میلنگ کے لئے استعمال کرنے والے ملزم کا جب سراغ لگایا گیا تو وہ وہی موبائل کی دکان کا کاریگر نکلا جس کو خاتون نے اپنا موبائل ری پیئرنگ کے لئے دیا تھا ۔

ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسر کا کہنا تھا کہ ایک واقعہ خود ان کے گھر میں ایک عزیزہ کے ساتھ پیش آیا جب ان کی عزیزہ کا موبائل فون ایک مقام پر چوری کرلیا گیا ۔ اس کے بعد یہ موبائل فون بلاک بھی کروالیا گیا اور سمیں بھی دوبارہ نکلوالی گئیں تاہم کچھ عرصہ بعد ان کی عزیزہ کی مختلف سہیلیوں اور رشتے داروں کو ان کے حساس ڈیٹا کے ساتھ مختلف نمبروں سے کالز موصول ہونے لگیں جس میں انہیں ان کی تصاویر وڈیوز اور چیٹ کے اسکرین شاٹس بھیج کر بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔ اس واقعہ پر جب تحقیقات کی گئیں تو اس نیٹ ورک میں بھی الیکٹرانک مارکیٹ میں موجود موبائل کی دکانوں پر سرگرم ایک گروپ ملوث نکلا جو کہ چوری کئے گئے اور چھینے گئے موبائل فونز کا ڈیٹا مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے ریکور کر کے بلیک میلنگ کے لئے استعمال کر رہا تھا ۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ مختلف گروپ ایسے پیڈ سافٹ ویئرز استعمال کر رہے ہیں جن کی مدد سے ان موبائلوں سے بھی ڈیٹا ریکور کرلیا جاتا ہے جن کو شہری فیکٹری ری اسٹور کرکے فروخت کرتے ہیں یا ری پیئرنگ کے لئے دیتے ہیں ۔ ایسے سافٹ ویئرز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیسوں میں ملوث ملزمان کی ڈیوائسز سے ڈیٹا ایکسٹرکٹ کرنے کے لئے فارنسک لیب میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔ یہ سافٹ ویئر سالانہ یا ماہانہ بنیادوں پر سینکڑوں ڈالر کی ادائیگیوں کے بعد ایکٹو ہوتے ہیں جن کی آئی ڈی اور پاس ورڈ استعمال کرکے دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھے ہوئے کاریگر ان کو استعمال کرسکتے ہیں ۔ان کی سروس مختلف کمپنیاں آن لائن فراہم کرتی ہیں ۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق اس معاملے میں شہری یہ احتیاط کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے گوگل پہلے کی آئی ڈیز کو لاگ آف کرکے بہت سارا ڈیٹا محفوظ بنا سکتے ہیں ۔ساتھ ہی فوری طور پر اپنے واٹس ایپ ، فیس بک اور دیگر ایپلی کیشنز کی ڈبل ویری فیکیشن آن کرکے کہیں سے بھی ان کے پاس ورڈ تبدیل کرسکتے ہیں جس سے کسی حد تک ان کی گیلری ،مختلف ایپلی کیشنز اور جی میل کا ڈیٹا محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔