بلاول بھٹو زرداری نے تمام شرائط مان کر اپوزیشن کا ہر بہانہ ناکام بنایا، فائل فوٹو
 بلاول بھٹو زرداری نے تمام شرائط مان کر اپوزیشن کا ہر بہانہ ناکام بنایا، فائل فوٹو

آئینی ترمیم۔ مذاکرات میں چھپا پی ٹی آئی کا جال

امت رپورٹ:

آئینی ترمیم پر حکومت کو مذاکرات میں الجھانا پی ٹی آئی کا ایک جال تھا۔ جس کا مقصد تاخیری حربے استعمال کرکے اضافی وقت حاصل کرنا تھا۔ تاکہ کسی طرح ترمیم کے معاملے کو قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی، پچیس اکتوبر تک ٹالا جاسکے۔ ہفتے کے روز اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رویہ نے اس چال کو پوری طرح عیاں کر دیا۔ جب ان کے رہنمائوں نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد کہا کہ جب تک بانی پی ٹی آئی واضح ہدایت نہیں دیدے ترمیم پر ووٹ نہیں دے سکتے۔

ادھر حکومت، پی ٹی آئی کی چال کو بھانپتے ہوئے پہلے ہی پلان ’’بی‘‘ تشکیل دے چکی تھی۔ جس کے تحت اتفاق رائے نہ ہونے پر ہر صورت پیر کے روز تک ترمیم کی منظوری اور اس کی ابتدا سینیٹ سے کرنا تھی۔ تاہم ہفتے کی شام ان سطور کے لکھے جانے تک سینیٹ کا اجلاس چار بار تبدیل کیا جا چکا تھا۔ پہلے یہ اجلاس دوپہر ساڑھے بارہ بجے بلایا گیا۔ پھر سہ پہر تین بجے اور اس کے بعد شام ساڑھے چھ بجے۔ تاہم یہ وقت بھی تبدیل کر کے رات آٹھ بجے کر دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی کوشش تھی کہ کسی طرح ہفتے کے روز ہی چھبیسویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظور کرا لی جائے اور اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو ترمیم کی منظوری کے لیے اتوار اور پیر کا دن حتمی ڈیڈ لائن تھی۔ کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر اکیس اکتوبر تک یہ ترمیم نہیں کرائی جا سکی تو اس کی منظوری کے امکانات تقریباً ختم ہو جائیں گے اور یوں معاملے کو پچیس اکتوبر تک لے جانے سے متعلق اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کی کوشش کامیاب ہوتی ہے اور کسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بال مولانا فضل الرحمن کے کورٹ میں ڈال چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ترمیم کے جس مسودے پر اتفاق ہوا، وہ مولانا کی منشا کے مطابق ہے۔ جو ڈرافٹ مولانا نے لکھا، چاہتا ہوں، وہ خود ہی منظوری کے لیے پیش کریں۔

پی ٹی آئی نے مذاکرات کی آڑ میں تاخیری حربوں کا جال اس لئے پھینکا کہ اس کے خیال میں جسٹس منصور علی شاہ کے چیف بن جانے کے بعد حکومت کے لئے آئینی ترامیم لانا ممکن نہیں ہو گا اور عام تاثر بھی یہی تھا۔ اہم ذرائع کے مطابق ایسا نہیں کہ حکومت کو اس چال کی سمجھ نہیں تھی، تاہم سب کچھ جاننے کے باوجود حکومت محض حجت اتمام کے لئے ’’مذاکرات، مذاکرات‘‘ کھیلتی رہی۔ کیونکہ اس کے اتحادیوں اور خاص طور پر پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اتفاق رائے سے مجوزہ آئینی ترامیم لائی جائیں۔ لیکن ساتھ ہی پلان ’’بی‘‘ کے طور پر حکومت نے طے کرلیا تھا کہ آئینی ترمیم ہر صورت پچیس اکتوبر سے پہلے لانی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس حکمت عملی کے تحت مذاکرات کی ڈیڈ لائن زیادہ سے زیادہ اکیس اکتوبر تک رکھی گئی اور طے کیا گیا تھا کہ اس عرصے میں اگر بلاول بھٹو زرداری مولانا اور ان کی نئی اتحادی پی ٹی آئی کو منانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں (جس کی حکومت کو امید نہیں تھی) تو فبیہا، بصورت دیگر آئینی ترمیم منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کر دی جائے گی۔ اس سے بلاول بھٹو زرداری نے اتفاق کیا تھا۔

ذرائع کے بقول حکومت کے ایک سے زائد اہم لوگوں نے بلاول بھٹوزرداری کو باور کرایا تھا کہ آئینی ترمیم پر مذاکرات محض دھوکہ ہے او ر اس کا مقصد ٹائم گزارنا ہے لہذا جو کام کرنا ہے اسے کر دیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ آئینی ترمیم کے لیے نمبر پورے کیے جاچکے تھے ‘حتی کہ اس کے لئے مولانا کے تعاون کی ضرورت بھی نہیں تھی – تاہم نون لیگ کی اعلیٰ قیادت مولانا فضل الرحمٰن کی حد تک ضرور راضی تھی کہ ان کے شامل ہونے سے آئینی ترامیم کو زیادہ قانونی حیثیت مل جاتی۔ لیکن مولانا نے پی ٹی آئی کو بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بنا لیا۔ یہ کاندھا پی ٹی آئی کی فرمائش پر فراہم کیا گیا کیونکہ مذاکراتی عمل کا حصہ بن کر ہی پی ٹی آئی ترمیم کو لٹکانے کے پلان کو آگے بڑھا سکتی تھی۔ اس کے بعد مسودوں کے تبادلے ہوئے۔ پھر طے شدہ منصوبے کے تحت اپوزیشن کی فرمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

ابتدا میں مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے میں پچاس سے زائد شقیں تھیں جو گھٹتے گھٹتے چھبیس ہوگئیں۔ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچ کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا گیا۔ پھر پی ٹی آئی نے کہا ’’ہمیں قیدی نمبر 804 سے منظوری لینی ہوگی۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری نے یہ خواہش بھی پوری کرا دی۔ حالانکہ ایک چھابڑی لگانے والے کو بھی، جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، پتہ تھا کہ متکبر قیدی کبھی بھی ترمیم کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود کٹھ پْتلی پارٹی رہنماؤں کو اس کے پاس بھیجا گیا۔ یعنی ایک سزایافتہ مجرم سے آئینی ترمیم پر مشاورت کی گئی جو صرف پاکستان میں ممکن ہے ، لیکن نتیجہ توقع کے عین مطابق نکلا اور انکار ہوگیا۔

اس سے پہلے ہر روز یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے کے قریب ہیں۔ حتی کہ جمعہ کے روز تو مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے مسودے کی منظوری کا دعویٰ کردیا گیا۔ اس کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسودے کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔ لیکن ذرائع کے بقول سب کچھ ’’اچھا ہے‘‘ کی رپورٹس نہیں تھیں۔ تمام شرائط تسلیم کئے جانے کے باوجود اپوزیشن مکمل گرین سگنل نہیں دے رہی تھی جو طے شدہ حکمت عملی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے اس ہتھکنڈوں سے تنگ آکر بلاول بھٹو زرداری کو بھی کہنا پڑا ’’ہم نے ہر طرح کا سمجھوتہ کیا۔ کہا گیا آئینی عدالت نہیں آئینی بنچ بنائیں۔ اپوزیشن کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود آئینی مسودے پر تمام جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں ناکامی ہوتی ہے تو حکومت کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس فریضے کو سرانجام دیا جائے گا۔‘‘ وہ جمعہ کے روز حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے کہا ’’میں مولانا فضل الرحمٰن سے آج رات ایک آخری درخواست کروں گاکہ آئینی عدالت کے قیام پر رضامند ہوجائیں تاکہ ہم اس کام کو جمہوری اور غیر متنازعہ طریقے سے سرانجام دیں۔‘‘ پھر جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب ایک بجے کے قریب بلاول حیدرآباد سے سیدھا اسلام آباد مولانا سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچ بھی گئے۔ لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا تھا کہ یہ مولانا سے ان کی مذاکرات کے حوالے سے آخری ملاقات ہو گی لیکن انہوں نے لچک دکھاتے ہوئے ہفتے کے روز ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔

دو روز قبل پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا ٹاک کرتے ہوئے مولانا نے شکوہ کیا تھا کہ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو اغوا کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے دھمکی دی تھی کہ بدمعاشی کا جواب بدمعاشی سے دیا جائے گا۔ جس پر بہت سے آزاد مبصرین کا کہنا تھا کہ حکومت ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف ارکان لاپتہ کرنے کی کارروائیاں کرکے معاملہ خود خراب اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ تاہم مولانا کے قریب سمجھے جانے والے صحافی حماد حسن کا دعویٰ تھا کہ مولانا کی برہمی کا اصل سبب یہ نہیں تھا کہ ان کے ارکان کو ہراساں کیا جارہا ہے بلکہ حقائق یہ ہیں کہ جے یو آئی (ف) کے پانچ ارکان جن میں دو سینیٹرز اور تین ارکان قومی اسمبلی شامل ہیں، ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور حکومتی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر تیار ہیں۔

دھونس دھمکی اور لالچ کے ذریعے ارکان کے ضمیر خریدنے کا ماتم کرنے والی پی ٹی آئی قیادت کا شاید مکافات عمل پر یقین نہیں۔ ورنہ اسے یہ ضرور یاد آتا کہ کس طرح پی ٹی آئی حکومت نے اکثریت نہ ہو نے کے باوجود پہلے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا اور پھر ان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنوایا تھا -صادق سنجرانی کے حق میں 45 ارکانِ سینیٹ نے ووٹ دیا جبکہ ایوان میں پی ٹی آئی حکومت کے ارکان کی تعداد محض 36 تھی۔

اس پر عمران خان اور شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ارکان سینیٹ نے اپنے ضمیر کی آواز پر ان کے حکومتی اْمیدوار کو ووٹ دیا۔ تب ’’ضمیر کی آواز‘‘ پر ووٹ دینا ثواب تھا لیکن آج گناہ ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے حواری شاید یہ بھی بھول گئے ہیں کہ کس طرح دانے پورے کرنے کے لیے جہانگیر ترین جہاز میں اپوزیشن ارکان کو ڈال کر بنی گالہ لایا جاتا تھا اور عمران خان ان کے گلے میں پی ٹی آئی کا مفلر ڈال کر بڑبڑایا کرتے تھے ’’شکریہ فیض حمید‘‘۔ وہ فصل آج کاٹنا پڑ رہی ہے تو اس پر ماتم کیسا؟