امت رپورٹ:
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں پروفیشنل گروپ المعروف حامد خان گروپ یا لاہوری گروپ کی شکست نے چھبیسویں ترمیم کے خلاف مجوزہ وکلا تحریک کے پلان کو بظاہر دفن کردیا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حامد خان گروپ کو انڈیپنڈنٹ گروپ المعروف عاصمہ جہانگیر گروپ کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ حامد خان گروپ کو اپنے حریف گروپ کے مقابلے میں ایک سے زائد ایڈوانٹیج حاصل تھے۔ اول یہ کہ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں۔ لہٰذا بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ اس بار حامد خان گروپ کو ہمدردی کا ووٹ پڑے گا۔ دوئم یہ کہ پوری پی ٹی آئی اس وقت وکلا کے ہاتھ میں ہے۔ سوئم یہ کہ حامد خان گروپ کو تقریباً ان تمام سینئر وکلا کی سپورٹ حاصل تھی، جنہوں نے دوہزار سات میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تحریک میں صف اول کا رول ادا کیا تھا۔ ان میں منیر اے ملک اور علی احمد کرد سمیت دیگر شامل ہیں۔ لیکن ان تمام ایڈوانٹیجز کے باوجود حامد خان گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اب اس طرف آتے ہیں کہ حامد خان گروپ کو الیکشن میں ناکامی کیوں ہوئی؟ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تحریک میں بھرپور حصہ لینے والے ایسے ایک سے زائد کرداروں کے سامنے یہ سوال رکھا گیا، جو اب تسلیم کرتے ہیں کہ آزاد عدلیہ کا نعرہ دھوکہ تھا۔
حامد خان گروپ کی حالیہ شکست کے سوال پر ان کے جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ پروفیشنل گروپ کو حامد خان کا تکبر لے ڈوبا۔ حامد خان نے جس طرح سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بے عزتی کرنے کی کوشش کی، چیف الیکشن کمشنر کو کھلے عام دھمکیاں دیں اور برا بھلا کہا۔ اس سے ایسا لگا، جیسے وہ وکلا برادری کے ڈان ہوں۔ شکست کی دوسری وجہ عین الیکشن سے پہلے ان تمام وکلا رہنمائوں کا کراچی کنونشن میں شریک ہوکر ایک اور تحریک چلانے کی دھمکی تھی، جو افتخار چوہدری بحالی تحریک کے سرخیل تھے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ دوہزار سات میں وکلا کارڈ کامیابی سے کھیلا گیا تھا۔ لیکن جس مقصد کے لئے وہ تحریک چلائی گئی تھی، اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ عام سائل دربدر ہوتا رہا۔ جبکہ تحریک میں حصہ لینے والے متعدد کردار ارب پتی بن گئے۔ ان وکلا رہنمائوں نے کروڑوں کی فیسیں لے کر اپنے کیسز افتخار چوہدری کی عدالت میں لگوائے اور اپنے حق میں فیصلے لئے۔ اس بات کی نشاندہی اس تحریک کو لیڈ کرنے والے اعتراز احسن خود بھی کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک کے بعد ان کے کئی کولیگ اربوں پتی بن گئے۔
دوسری جانب عدلیہ آزاد ہونے کے بجائے لاہوری گروپ کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن گئی۔ ثاقب نثار سے لے کر بندیال تک ، عدالتی نظام عموماً لاہوری گروپ کے کنٹرول میں رہا۔ ان چیف جسٹس صاحبان کے دور میں کئے جانے والے متنازعہ اور مشکوک فیصلے اس کا ثبوت ہیں۔ یوں حامد خان گروپ پوری طرح بے نقاب ہوا اور اس کے ظاہر و باطن کا فرق سامنے آگیا۔ اب ایک بار پھر جب ان ہی کرداروں نے دوبارہ تحریک چلانے کی دھمکی دی تو الیکشن میں اس کا ردعمل ووٹوں کی شکل میں آیا۔ کیونکہ وکلا کی اکثریت پر واضح ہوچکا ہے کہ یہ عدلیہ کی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ صرف جوڈیشل پاور کی لڑائی ہے۔ ایک گروپ چاہتا ہے کہ جج بھی اس کی مرضی کے آئیں، بنچ بھی ان کی خواہش پر بنائے جائیں اور فیصلے بھی ان کی منشا کے مطابق سنائے جائیں تاکہ ان کی چاندی ہوتی رہے۔
یہی وجہ ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں ججز کے طریقہ کار میں تبدیلی کا سب سے بڑا دکھ حامد خان گروپ کو ہوا کہ اب پہلے کی طرح ان کے چیمبر سے ججز کی تقرری کا راستہ مسدود ہوگیا ہے اوران تقرریوں میں پارلیمنٹ کا رول بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ حامد خان گروپ کا فوکس اس پر کبھی نہیں رہا کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ساٹھ ہزار کے قریب کیسز نمٹانے کی راہ ہموار کی جائے۔ پاکستان کی ستتر سالہ تاریخ میں کسی سیاسی پارٹی نے اتنے مختصر عرصے میںاس قدر پٹیشنز دائر نہیں کیں، جتنی پی ٹی آئی سے جڑے حامد خان گروپ کے وکلا نے کیں۔ اس کے نتیجے میں عدالتی نظام جام ہوگیا۔ عام سائل کے کیسز رلتے رہے اور پی ٹی آئی کی پٹیشنز سماعت کے لئے مقرر ہوتی رہیں۔
حامد خان گروپ کی شکست کے اثرات ملک کے موجودہ سیاسی سیناریو پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ چھبیسویں ترمیم کو جو خطرہ تھا، وہ ختم ہوگیا ہے۔ پھر یہ کہ حامد خان گروپ جس طرح کی وکلا تحریک چلانے کا پلان بنارہا تھا، اس کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔ اگر تحریک چلتی بھی ہے تو اس میں جان نہیں ہوگی، کیونکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن نتائج سے واضح ہوگیا ہے کہ وکلا کی بڑی تعداد دوسری طرف کھڑی ہے۔ اسی طرح مجوزہ ستائیسویں ترمیم کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے۔ اب اگر حکومت مزید آئینی ترامیم لانا چاہے تو شاید اس کے لئے اتنی مشکلات نہیں ہوں گی۔ اگر سیاسی پہلو کو دیکھا جائے تو حامد خان گروپ کی شکست سے پی ٹی آئی مزید کمزور اور حکومت مضبوط ہوئی ہے۔