اسلام آباد(اُمت نیوز)سابق جج سپریم کورٹ اعجاز افضل خان نے نواز شریف کی نااہلی پر خاموشی توڑ دی۔
جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے متعلق اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔کہتے ہیں کہ جب اس وقت کی حکومت نے جے آئی ٹی کیلئے نام تجویز کیے تو سپریم کورٹ کے ججوں نے محسوس کیا کہ یہ افراد ’’قابل رسائی‘‘ ہیں جس سے تحقیقات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
ہم نے کوئی مخصوص نام نہیں مانگے تھے، صرف غیر جانبداری کو یقینی بنانے کی خاطر اچھی ساکھ کے حامل عہدیداروں کی فہرست کی درخواست کی تھی، جسٹس عظمت سعید شیخ نے ذاتی طور پر کال نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہدایت کی تھی کہ وہ محکموں سے کہیں کہ وہ قابل اعتماد اعلیٰ حکام کے نام تجویز کریں۔
جسٹس اعجاز افضل نے حکومتی اثرورسوخ کے بارے میں خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین جیسے عہدیداروں کے شریف فیملی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، جس سے ایسی حساس تحقیقات میں ان کی آزادی پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ جج سے جے آئی ٹی کی سکیورٹی کیلئے آئی ایس آئی حکام کی تعیناتی کے فیصلے اور دو فوجی اہلکاروں کو جے آئی ٹی کے ارکان میں شامل کرنے کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پانامہ پیپرز کیس کے دوران کبھی کسی فوجی جنرل نے ان سے رابطہ کیا تھا تو جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے کہا کہ مجھ سے ایک بار کے علاوہ کسی فوجی جنرل نے رابطہ نہیں کیا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس کے دوران ججوں نے قمر زمان چوہدری کو طلب کیا تھا، میں نے ان سے کہا کہ یہ ٹھوس تحقیقات ہے، لیکن تحقیقات کے دوران ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا، جو قانوناً نہیں ہونا چاہئے،بعد ازاں جب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تو انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تاہم جسٹس عیسیٰ نے لمٹیشن کے باعث اپیل خارج کر دی۔ جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ اپیل میں تاخیر کو نظر انداز کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔