محراب شاہ آفریدی
جمعرات کے روز چین سے پہلی مرتبہ مال بردار ٹرین افغانستان روانہ کر دی گئی۔ بنیادی طور پر چین اور افغانستان کے مابین ریلوے ٹریک 2016ء میں بچھائی گئی تھی جو چین کو افغانستان کے ساتھ براستہ ازبکستان اور قازقستان ملاتی ہے۔
2022ء میں بھی بارہ ویگن پر مشتمل ایک ٹرین تقریباً 12 دنوں میں افغانستان کے صوبہ بدخشاں سے ہوتے ہوئے ہیراتان پورٹ پہنچی تھی۔ لیکن موجودہ فریٹ ٹرین، جس کو کارگو ٹرین بھی کہہ سکتے ہیں، چین کے صوبہ ژیانگ سو کے شہر نان ٹونگ سے سیدھا افغانستان کی بندرگاہ ہیراتان روانہ کی گئی۔
واخان کی پٹی چین اور افغانستان کے درمیان واحد سرحدی پٹی ہے جس کی لمبائی 350 کلومیٹر اور چوڑائی 16 اور 64 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔ یہی پٹی ہے جو اسی علاقے میں پاکستان کو تاجکستان سے بھی الگ کر دیتی ہے ’’پامیر‘‘ کا طویل اور دشوار گزار پہاڑی سلسلہ بھی افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں واقع ہے اور اسی پہاڑی سلسلے سے جو دریا نکلتا ہے اس کو پنج اور پامیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو آگے جاکر دریائے آمو کا حصہ بنتا ہے۔
یہ پٹی پاکستان کے علاقوں گلگت اور کشمیر سے بھی ملتی ہے۔ سائز میں چھوٹی واخان کی پٹی کی انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت ہے۔ اس فریٹ ٹرین کی افتتاحی تقریب چین کے شہر نان ٹونگ میں منعقد کی گئی تھی۔ صوبہ ژیانگ سو اور اس کے شہر نان ٹونگ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ جیسے عظیم اقتصادی کوریڈور کا حب اور بنیادی مرکز بھی سمجھے جاتے ہیں۔
چین میں افغانستان کے سفیر مولوی بلال کریمی نے نان ٹونگ میں چین کی حکومت کے خصوصی نمائندے یوشووایونگ اور دیگر چینی حکام کی موجودگی میں افغانستان اور چین کے درمیان مال بردار ٹرین کا افتتاح کیا۔ یہ ٹرین برقی آلات، کپڑے، کارگو اور دیگر سامان سے لدے 50 کنٹینرز لے کر افغانستان روانہ ہوئی جو 20 دنوں میں نانٹونگ شہر سے ہرات کے ہیراتان پورٹ پہنچے گی۔ ٹرین کے ذریعے یہ اقتصادی کوریڈور چینی حکومت کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مضبوط کرے گا۔
اسی طرح افغانستان کے پاس بھی چین کو برآمد کرنے کے لئے بڑی مقدار میں اشیا موجود ہیں جن میں معدنیات، قیمتی پتھر، کوئلہ وغیرہ، فریش اور ڈرائی فروٹس شامل ہیں۔ یہ کارگو ٹرین افغان مصنوعات چین کو پہنچائے گی جو چینی صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرے گی جس سے مشترکہ تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ اس فریٹ ٹرین کے افتتاح سے افغان تاجر اپنا سامان چین کی منڈیوں کو ایکسپورٹ کر سکیں گے اور چینی مصنوعات افغانستان کو آسان اور سستے داموں درآمد کر سکیں گے۔
نان ٹونگ شہر کے متعلقہ حکام نے بھی افغان سفیر کو یقین دلایا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے لئے اقتصادی رابطے کی مثال بننے کے لیے ٹرین کے ذریعے لین دین کے اس عمل کو جاری رکھیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے اندر چین کی مصنوعات براستہ افغانستان آسکیں گی اور اس طرح تقریباً جنوبی ایشیا اور مرکزی ایشیا کی تمام مارکیٹوں پر چائنا کی مصنوعات کا قبضہ ہو سکے گا۔ اور یہی چین کی بہترین سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی ہے۔
اگرچہ طورخم اور چمن سرحدی راستوں کے ذریعے پاکستانی مصنوعات گھنٹوں میں افغانستان کے کونے کونے تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ تاہم صرف طورخم بارڈر کے ذریعے بلین ڈالر کی تجارت گھٹتے گھٹتے ملین تک آرہی ہے۔ اگرچہ فی الحال پاکستان کی طرف سے سیمنٹ، آٹا اور آٹے سے بننے والی مصنوعات وافر مقدار میں افغانستان جا رہی ہیں اور اسی طرح افغانستان سے کوئلہ، سبزیاں اور تازہ پھل آرہے ہیں۔ تاہم اگر پاکستان نے ٹیکسوں اور محصولات میں کمی کی تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔