عمران خان :
گزشتہ برسوں میں کھربوں روپے کی اسمگلنگ اور ٹیکس چوری میں گرین چینل استعمال ہونے کی رپورٹس پر حکومت نے وقتی طور پر تاجروں کیلئے یہ سہولت ختم کردی ہے۔ تمام درآمدی و برآمدی سامان کی کھیپیں ریڈ چینل سے مکمل جانچ کے بعد کلیئر کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے ہیں۔ اس دوران ملک بھر میں گرین چینل سے سامان کی کلیئرنس کی سہولت رکھنے والی کمپنیوں اور کارخانوں کی اسکروٹنی کی جارہی ہے۔ تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کن کمپنیوں نے اس سہولت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی۔ اس کے لئے گزشتہ 10 برس میں گرین چینل کے ذریعے ہونے والی وارداتوں کے کرمنل ریکارڈ کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ یہ سہولت صرف صاف اور شفاف ریکارڈ رکھنے والی کمپنیوں تک ہی محدود کر کے دوبارہ نافذ فعال کی جائے گی۔
موصول اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے حکومت کی منظوری کے ساتھ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے جاری ہونے والے احکامات پر ابتدائی طور پر ایئرپورٹ پر تعینات حکام کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ فی الوقت ملک میں آنے اور جانے والے سامان کی کلیئرنس گرین چینل کے بجائے ریڈ اور یلو چینل سے ہی کی جائے۔ اگلے مرحلے میں یہ سلسلہ بندرگاہوں سے ہونے والی کلیئرنس تک پھیلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ جس کے بعد ان ہدایات پر عمل در آمد کرتے ہوئے محکمہ کسٹمزنے درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس کے لئے دی جانے والی گرین چینل کی سہولت میں رد و بدل کرتے ہوئے تمام درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس کو کوریڈچینل کے ذریعے کردیا ہے۔
ذرائع کے بقول اس کے لئے محکمہ کسٹمزکی جانب سے رسک مینجمنٹ سسٹم (آرایم ایس ) میں رد و بدل کیاگیاہے ۔جس کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے تمام درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس گرین چینل سے بجائے ریڈچینل سے کلیئرکئے جائیں گے۔ اب ایئرپورٹ سمیت تمام بندرگاہوں کے ٹرمنلز پر درآمدکئے جانے والے کنسائمنٹس کی سوفیصدجانچ پڑتال کی جائے گی۔ اس سلسلے میں محکمہ کسٹمزکے ذرائع کاکہناہے کہ گرین چینل کی سہولت کو ختم کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گرین چینل کے سہولت کے ذریعے ٹریڈرزکی جانب سے کی جانے والی کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا اور اس کرپشن کو روکنے کے لئے محکمہ کسٹمزکی جانب سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول گزشتہ برسوں میں کسٹمز انٹیلی جنس ،کسٹمز انفورسمنٹ اور اپریزمنٹ کلکٹریٹس کی جانب سے ایسے سینکڑوں مقدمات قائم کئے گئے جن میں قیمتی الیکٹرانک سامان ، مہنگی کاسمیٹکس ، گھڑیاں، موبائل فون، چھالیہ اور بھارتی کپڑے کی کنسائنمنٹس کی کھربوں روپے کی کھیپیں مختلف قسم کے کباڑ اور لنڈے کے سامان کی درآمد کی آڑ میں ملک میں لائی جا رہی تھیں۔ بڑے پیمانے پر کی جانے والی ان ٹیکس چوری کی وارداتوں میں جب تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ مذکورہ کنٹینرز جن کمپنیوں کے ناموں اور ان کی آئی ڈیز پر در آمد کئے جا رہے تھے، ان کے پاس گرین چینل کی سہولت موجود تھی۔ یعنی ان کا در آمد کردہ سامان بغیر چھان بین کے کلیئر کردیا جاتا تھا۔ گرین چینل کی سہولت حکومت پاکستان کی جانب سے ایسے پاکستانی شہریوں اور سرمایہ کاروں کو دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جو اچھی ساکھ کے مالک ہوتے ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ سہولت بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے لئے استعمال ہونے لگی ۔
ایسی وارداتوں کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف مقدمات قائم کیے ہیں۔ مذکورہ تمام کنسائنمنٹس کو کلیئرنگ ایجنٹس نے کسی نہ کسی امپورٹرز کی آئی ڈی استعمال کرتے ہوئے گرین چینل کے ذریعے کلیئر کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی امپورٹر کو گرین چینل کی سہولت اْس وقت میسر ہوتی ہے جب وہ ایک خاص مدت تک ریڈ چینل اور یلو چینل کی سہولیات استعمال کرتا ہے۔ اس عرصے کے دوران ان کمپنیوں کے سامان میں کسی قسم کی انڈر انوائسنگ ، مس ڈکلریشن نہیں پائی جاتی اور وہ پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں جس کے بعد ہی کسٹم میں موجود ویبوک نظام امپورٹر کو ہر کنسائنمنٹ قانونی طریقے سے کلیئر کرانے اور کنسائنمنٹ پر لاگو ٹیکس و ڈیوٹی ادا کرنے پر ان کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ اس کے لیے کسٹم کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ آف رسک مینجمنٹ کی نگرانی ہوتی ہے۔
ملک میں تاجروں اور صنعتکاروں کو گرین چینل کی سہولت ان کو تیز ترین کلیئرنس سروس فراہم کرنے کے لئے دی گئی تھی۔ تاکہ کسٹمز کلیئرنس کے دوران ان وقت ضائع نہ ہو اور ان کو ٹرمنل وغیرہ کے اضافی چارجز ادا نہ کرنے پڑیں۔ وقت کے ساتھ پہلے گرین چینل کی سہولت ملک کی 5 سے 10 فیصد کمپنیاں اور تاجر استعمال کرتے رہے تاہم بعد ازاں 5 برس قبل تک یہ حال ہوگیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق 32 فیصد امپورٹرز گرین چینل، 46 یلو چینل اور 22 فیصد ریڈ چینل استعمال کرنے لگے۔ یعنی گرین چینل کی سہولت دیگر چینلز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگئی۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ملک میں 50 فیصد سے زائد سامان بغیر چھان بین کے آنے لگا ہے۔ جبکہ 2022ء تک یہ شرح 50 فیصد گرین چینل تک پہنچ گئی۔
اس معاملے پر 2019ء میں بڑا اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب گرین چینل سے اربوں روپے کی ٹیکس چوری اور اس میں کسٹمز کے بعض اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کی تحقیقات نیب کے پاس آئیں اور اس معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے بھی ایف آئی اے اور نیب کو مکمل کارروائی کرنے اور ملوث عناصر کی نشاندہی کرنے کے احکامات دئے گئے۔ تاہم بعد ازاں اس معاملے کو دبا دیا گیا حالانکہ اس وقت تحقیقاتی اداروں نے ملک بھر میں 100سے زائد ایسے کسٹمز افسران کی نشاندہی بھی کی تھی جو مبینہ طور پر گرین چینل سے ہونے والی اسمگلنگ پر بھاری رشوت وصول کر رہے تھے۔
مذکورہ نیب تحقیقات میں ایک کسٹمز افسر کی جانب سے تحریری درخواست بھی دی گئی تھی جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ کسٹمز میں چیف کلکٹر، ڈائریکٹر جنرل، کلکٹرز اور ڈائریکٹرز تک کے افسران اپنے ماتحت افسران کے ذریعے گرین چینل سے غیر قانونی طور پر اشیا کی کلیئرنس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے میں ملوث رہے۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ پاکستان کی بندرگاہوں میں غیر قانونی طور پر کلیرنس کے حوالے سے یہ اعداد و شمار ہوشربا تھے کہ اس وقت مجموعی درآمد و بر آمد کے سامان میں سے 46 فیصد کلیئرنس گرین چینل کے ذریعے ہوتی رہی۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس سہولت کے تحت جہاں اسمگلرز کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کی اشیاء کی بندرگاہوں پر چیکنگ نہیں ہو گی، وہیں گرین چینل سہولت خصوصی طور پر امیر افراد کو مہیا کی گئی جو کہ پہلے سے بزنس ٹائیکون تھے۔ ایسے ہی بعض عناصر بعد ازاں کسٹمز حکام کو قیمتی تحفے دینے کے ساتھ اس رعایت کے عوض مختلف سیاسی جماعتوں کو مختلف طریقوں سے بھاری فنڈنگ کرتے تہے۔