کراچی کے اہم اضلاع ڈرگ انسپکٹرز سے محروم ہیں، پوسٹنگ نہ ہونے سے جعلی و اسمگل شدہ ادویات مافیا کو ریلیف ملنے لگا، فائل فوٹو
کراچی کے اہم اضلاع ڈرگ انسپکٹرز سے محروم ہیں، پوسٹنگ نہ ہونے سے جعلی و اسمگل شدہ ادویات مافیا کو ریلیف ملنے لگا، فائل فوٹو

جعلی و اسمگل شدہ ادویات کیخلاف آپریشن لٹک گیا

عمران خان:

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) اور ایف آئی اے کے درمیان رسہ کشی کے نتیجے میں ملک بھر میں جعلی و اسمگل شدہ ادویات مافیا کے خلاف آپریشن لٹک گیا ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے 9 ماہ قبل منصب سنبھالنے کے فوری بعد جن معاملات پر ایف آئی اے کو یومیہ بنیادوں پر کارروائیوں کے احکامات دیے گئے تھے، ان میں جعلی ادویات مافیا اور حوالہ ہنڈی کے خلاف کارروائیاں سر فہرست رکھی گئی تھیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر گزشتہ 3 ماہ کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے ڈریپ افسران کے ساتھ مل کر صرف 3 کارروائیاں کی جاسکی ہیں۔ جبکہ جعلی ادویات مافیا کی سرگرمیاں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کو فوری طور پر اس معاملے پر نوٹس لینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

اسلام آباد میں موجود انتہائی معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ( ڈریپ) کے حکام کی جانب سے بعض نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ایف آئی اے کے ساتھ مل کر جعلی اور اسمگل شدہ ادویات کی تیاری اور فروخت میں ملوث مافیا کے خلاف تعاون نہیں کیا جا رہا۔ ڈریپ کے ضلعی سطح کے انسپکٹرز ایف آئی اے کے ساتھ مل کر چھاپے مارنے اور اپنی مدعیت میں مقدمات درج کروانے سے گریز کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ آپریشن اب ناکامی کا شکار ہورہا ہے۔

اس معاملے پر جب ڈریپ ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ڈریپ حکام ادارے میں افرادی قوت کی کمی کے باعث آپریشن میں حصہ لینے سے کترا رہے ہیں۔ کیونکہ یومیہ بنیادوں پر مقدمات درج کروانے کے بعد ایک انسپکٹر کے حصے میں ماہانہ درجنوں کیسوں کی عدالتی پیروی آجاتی ہے جس میں اسے عدالتوں میں پیش ہو کر پراسکیوشن کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اسی ورک لوڈ کی وجہ سے ڈریپ انسپکٹرز نے ابتدائی طور پر آپریشن میں حصہ لینے کے بعد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔ اس میں انہیں ڈریپ اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز کے متعلقہ حکام کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں ایف آئی اے کی جانب سے ڈریپ افسران کے ساتھ مل کر کراچی ، پنجاب اور اسلام آباد میں صرف 3 کارروائیاں کی گئیں، جن میں جعلی ادویات کے کارخانے اور سپلائی چین پکڑی گئی۔ اس دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ کراچی کے کئی اہم اضلاع گزشتہ کئی مہینوں سے بغیر ڈریپ انسپکٹرز ( ایف آئی ڈیز ) کے چلائے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے جہاں ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ وہیں ملک میں سرگرم ہر قسم کی مافیا کا سب سے بڑا ہدف بھی رہا ہے۔

ایسے ہی جعلی ادویات مافیا کے بڑے نیٹ ورک اس شہر میں کام کرتے چلے آئے ہیں جو کراچی سے ملک بھر میں جعلی، غیر معیاری اور اسمگل شدہ ادویات سپلائی کرتے رہے ہیں ۔ اربوں روپے کا سالانہ دھندا ایک جانب، مگر اس وقت یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس مذموم کاروبار میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف مقدمات بنوانے کے ذمے دار وفاقی ادارہ ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی ( ڈریپ) کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی کے متعدد اضلاع بشمول ضلع سائوتھ ، ضلع ویسٹ، ضلع وسطی اور ضلع شرقی کے اضلاع بغیر فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کے چلائے جا رہے ہیں۔

موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ قوانین کے تحت ایف آئی اے کو جب بھی کسی جعلی ادویات کی فیکٹری یا گودام کی خفیہ اطلاع موصول ہوتی ہے تو انہیں اکیلے جانے کے بجائے ڈریپ کے متعلقہ علاقے کے افسران کو ساتھ لے کر جانا ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ کیس ڈرگ ایکٹ کے تحت بنائے جاتے ہیں جن کو عدالت میں اسی وقت پیش کیا جاسکتا ہے جب ان کیسوں میں ڈریپ کے انسپکٹرز ضبط شدہ سامان کی رپورٹ ( سیزر میمو) اپنے قواعد کے تحت بنائیں ۔ اس کے بعد یہی افسر ڈریپ کی جانب سے ایف آئی اے کو مذکورہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے مدعی کی حیثیت سے تحریری کمپلین جاری کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں ۔ ان تمام سرکاری امور کو مکمل کرنے کے بعد ہی ایف آئی اے کے افسران اپنا کیس بنا کر اس پر اپنی تفتیش کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر عدالتوں سے اس سقم کی بنیاد پر کیس خارج کردیئے جانے کا امکان موجود رہتا ہے ۔

ذرائع کے بقول اس صورتحال کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے ایف آئی اے کی متعدد کارروائیاں متاثر ہوچکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کے کراچی زونل ڈائریکٹوریٹ آفس کو اور مختلف سرکلوں کو اب تک انفارمز کے نیٹ ورک سے کئی ایسی اطلاعات ملیں جن پر اگر ڈریپ افسران بروقت دستیاب ہونے پر چھاپے مارے جاتے تو کروڑوں روپے کی جعلی ، اسمگل شدہ اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے ساتھ کئی مضبوط کیس بن سکتے تھے ۔ تاہم ایسا صرف اس وجہ سے نہ ہوسکا کہ جب ایف آئی اے افسران نے ڈریپ کراچی آفس سے رابطہ کیا گیا تو متعلقہ حکام نے بتایا کہ مذکورہ علاقوں کے اضلع کے لئے ڈریپ انسپکٹرز دستیاب نہیں ہیں ۔ کئی ماہ گزر جانے کے باجود ڈریپ ہیڈ کوارٹرز کی جانب سے ان اضلاع میں ایف آئی ڈیز کی پوسٹنگ نہیں کی گئی ہے جوکہ ایک حیران کن امر ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ معاملہ اب زیادہ سنگین صورتحال اختیار کرگیا ہے گزشتہ دنوں یہ صورتحال ایف آئی اے کے سرکلوں کی جانب سے زونل ہیڈ کوارٹر کراچی کے ڈائریکٹر نعمان صدیقی کے علم میں لائی گئی اور انہیں بتایا گیا کہ کیسے ڈریپ حکام کی وجہ سے متعدد کیس التوا میں ہیں تو ان کی جانب سے بھی اس پر نوٹس لیا گیا اور ڈریپ کراچی کے افسران کو بلا کر ایک میٹنگ کی گئی ۔ اس میٹنگ کے بعد ڈائریکٹر کراچی کی جانب سے ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف آئی اے کے توسط سے ڈریپ ہیڈ کوارٹر اسلام آباد اور وفاقی ہیلتھ منسٹری کو بھی آگاہ کیا گیا کہ جلد از جلد صورتحال پر ایکشن لیا جائے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر ڈریپ حکام نے اب تک اس پر کوئی عمل نہیں کیا ۔ بلکہ ڈریپ کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈاکتر عاصم کی جانب سے ڈریپ کراچی کے افسران کو تحریری طور پر پابند کردیا گیا کہ اس موضوع پر کسی سے کسی قسم کی کوئی بات نہ کی جائے اور اگر کسی افسر نے کوئی بات کی تو اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔

اس وقت صرف ضلع ملیر میں ایک ایف آئی ڈی کی پوسٹنگ ہے جو ملیر کے علاقوں کے ساتھ ہی پورے سندھ کے اضلاع کو دیکھ رہے ہیں جبکہ ایک ایف آئی ڈی حیدر آباد میں تعینات ہے۔ واضح رہے کہ ضلع وسطی و ضلع غربی کی اپنی جگی اہمیت ہے کہ یہاں کراچی کے انتہائی پرہجوم اور پوش علاقے بھی ہیں جہاں ہزاروں میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز اور ادویات کے گودام ہیں اور سینکڑوں ڈرگ ڈیلراور سپلائر ان سے منسلک ہیں ۔ انہی علاقوں میں سائٹ ایریا ، نیو کراچی صنعتی ایریا اور ایف بی صنتعی ایریا میں قائم میڈیسن کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کے کوالٹی اسٹینڈرز کی جانچ پڑتال ایک مخصوص مدت میں کرنا ڈریپ کا کام ہے ۔ تاہم ضلع جنوبی وہ اہم علاقہ ہے جہاں صدر سمیت اولڈ سٹی ایریا کی مارکیٹوں کے ساتھ ہی ملک کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ قائم ہے، جہاں یومیہ بنیادوں پر کروڑوں روپے کی ادویات کا ہول سیل کا کاروبار ہوتا ہے۔