فائل فوٹو
فائل فوٹو

7 رکنی آئینی بینچ کو ہی فل کورٹ سمجھا جائے، جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے گھی ملز پر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی آئینی بینچ کو ہی فل کورٹ سمجھا جائے۔

آئینی بینچ نے گھی ملز پر ٹیکس سے متعلق کیس میں تمام صوبوں کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں اس کیس پر فیصلہ دے چکا ہوں، میرے خیال میں مجھے کیس نہیں سننا چاہیے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس کیس میں فل بینچ کا فیصلہ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد اب فل کورٹ نہیں رہا۔

کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

دوسری جانب آئینی بینچ نے ایک وقوعہ پر دو ایف آئی آر کا اندراج کے معاملے میں دائر درخواست نا قابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں ایسے کیسز کی وجہ سے زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار ہو چکی ہے اور ہمیں ساٹھ ہزار زیر التوا مقدمات بار بار یاد کرائے جاتے ہیں، کیوں نہ آپ کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کریں۔ آپ تو وکیل ہیں آپ بھی ایسے کیسز عدالتوں میں دائر کریں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ صغریٰ بی بی کیس میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے، دوسری ایف آئی آر کے اخراج کے لیے ہائیکورٹ کیوں نہیں گئے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کی جانب سے آئینی بینچ کو بھیجے گئے 2 مقدمات ریگولر بینچ کو واپس بھیج دیے گئے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سعید کھوسہ بنام وزارت پٹرولیم کیس کی سماعت کی جس کے دوران وکیل درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ 3 رکنی ریگولر بینچ نے کیس آئینی بینچ میں بھیجا تھا جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ میں ریگولر بینچ کا حصہ تھی، وکیل کی استدعا پر آئینی بینچ میں کیس بھیجا گیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایسے ہر کیس آئینی بینچ نہ بھیجیں اگر کسی کیس میں آئینی سوال ہو تو اسے بھیجیں بعدازاں آئینی بینچ نے کیس دوبارہ ریگولر بینچ کو بھیج دیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مقدمات کبھی ایک بینچ کبھی دوسرے بینچ جا رہے ہیں، دوسرے فریق کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ کیس آئینی بینچ کو بھیجیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو مذکورہ مقدمہ آئینی بینچ بھیجا تھا جبکہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی بھی بینچ کا حصہ تھے۔

آئینی بینچ کی جانب سے ایک اور کیس بھی ریگولر بینچ کو بھیجا گیا جو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق تھا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مقدمات کبھی ایک بنچ تو کبھی دوسرے بنچ جا رہے ہیں جس پر وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ دوسرے فریق کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ کیس آئینی بنچ کو بھیجیں، اس پر دوسرے فریق کے وکیل سلیمان اسلم بٹ نے کہا کہ ہم نے استدعا نہیں کی تھی کہ کیس آئینی بنچ میں بھیجیں۔

بعدازاں عدالت نے ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق کیس بھی ریگولر بنچ کو بھیج دیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ صوبائی لا افسران کا موقف تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا نے قانون سازی کرلی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ باقی صوبے بھی قانون سازی کر لیں، جب قانون نہیں بنایا جائے گا تو مقدمات بیس بیس سال تک ہی چلتے رہیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپنا کام نہیں کیا جاتا پھر کہتے ہیں عدالتیں کام نہیں کرتیں۔ بعدازاں آئینی بینچ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

آئینی بینچ کی جسٹس عائشہ ملک نے صحافیوں کی تنخواہوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس سننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا۔

جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ نجی چینل ملازمین تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے نیا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، معزز جج صاحبہ نے از خود نوٹس سننے سے انکار کیا ہے، کیس اہم ہے اس لیے آج عدالتی کارروائی کو ملتوی کر رہے ہیں، تنخواہوں کا کیس نئے آئینی بینچ میں سماعت کے لیے لگے گا۔