سید حسن شاہ :
نائن زیرو کے سابق سیکیورٹی انچارج اور ہائی پروفائل ٹارگٹ کلر منہاج قاضی سمیت متحدہ دہشت گردوں کے خلاف کے ای ایس سی کے سابق ایم ڈی شاہد حامد کا قتل کیس 27 سال بعد آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ منہاج قاضی سمیت دو ملزمان کے خلاف مقدمہ کا ٹرائل مکمل کرلیا گیا ہے۔ پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام کی جانب سے ٹرائل کے دوران ملزمان کے خلاف عینی شاہدین سمیت مجموعی طور پر 16 گواہوں کے بیانات قلمبند کروادیئے گئے۔ عینی شاہدین سمیت بیشتر گواہوں کی جانب سے ہائی پروفائل ٹارگٹ کلر منہاج قاضی کو اپنے بیان میں شناخت کیا جاچکا ہے۔ مقدمہ میں ملزمان کے بیانات ریکارڈ ہونا اور وکلا کے حتمی دلائل باقی ہیں جس کے بعد فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم صولت مرزا کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی جا چکی ہے۔
متحدہ دہشت گردوں کے خلاف کے ای ایس سی کے سابق ایم ڈی شاہد حامد قتل کیس 27 سال بعد آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ مقدمہ کے اہم اور آخری گواہ تفتیشی افسر سرور کمانڈو کا بیان بھی قلمبند کرلیا گیا ہے اور اس پر وکلائے صفائی کی جانب سے جرح بھی مکمل کرلی گئی ہے۔ جبکہ ملزمان کے خلاف ٹرائل بھی مکمل ہوگیا ہے۔ ٹرائل کے دوران پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام کی جانب سے مجموعی طور پر 16 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرائے گئے ہیں۔
پراسیکیوشن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ٹرائل کے دوران اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ جبکہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت وشواہد بھی موجود ہیں۔ مقدمہ کے اہم گواہ تفتیشی افسر نے نائن زیرو کے سابق سیکورٹی انچارج ہائی پروفائل ٹارگٹ کلرملزم منہاج قاضی کو اپنے بیان میں شناخت بھی کرلیا ہے جس سے کیس مضبوط ہوگیا ہے۔ تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ ملزم منہاج قاضی کو نبی بخش تھانے کی پولیس نے 2016ء میں اسلحہ کے مقدمہ میں گرفتار کیا تھا۔ جیل سے ملزم منہاج قاضی کی شاہد حامد قتل کیس میں گرفتاری ڈالی گئی تھی۔ جیل میں ملزم منہاج قاضی سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف جرم کیا۔
منہاج قاضی نے اعتراف کیا کہ اس نے صولت مرزا و دیگر کے ساتھ مل کر شاہد حامد کا قتل کیا تھا۔ شاہد حامد کو قتل کرنے کے لئے صولت مرزا لیڈ کررہا تھا۔ شاہد حامد کو ڈیفنس میں اس کے گھر کے قریب قتل کیا گیا تھا۔ ملزم منہاج قاضی نے جائے وقوعہ کی نشاندہی بھی کرائی تھی۔ مقدمہ کے دو چشم دید گواہوں سے ملزم منہاج قاضی کی شناخت پریڈ بھی کرائی گئی۔ دونوں چشم دید گواہوں نے بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو منہاج قاضی کو شناخت کیا تھا۔ نبی بخش تھانے کے مقدمہ میں ملزم منہاج قاضی کا زیر دفعہ 164 کا بیان بھی ریکارڈ کرایا گیا تھا۔ زیر دفعہ 164 کے بیان میں ملزم منہاج قاضی نے اقبال جرم بھی کیا تھا۔
اس کے علاوہ مقدمے کی مدعیہ شہناز حامد اور گواہ عمر شاہدحامد نے بھی منہاج قاضی کو شناخت کیا تھا اور اس کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے۔ گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے کے پراسیکیوشن کی جانب سے اپنی سائیڈ کلوز کردی ہے۔ اب اس کیس میں ملزمان منہاج قاضی اور ملزم محبوب کے بیانات ریکارڈ ہونا باقی ہیں اور وکلا طرفین کی جانب سے حتمی دلائل دیئے جائیں گے۔ مذکورہ عمل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔
ریکارڈ کے مطابق5 جولائی 1997ء میں کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد کو قتل کر دیا گیا تھا، جس کا مقدمہ مقتول کی اہلیہ شہناز حامد کی مدعیت میں تھانہ ڈیفنس میں درج کیا گیا۔
پراسیکیوشن کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھاکہ گرفتار ملزم منہاج قاضی اور محبوب نے اعتراف جرم کیا تھا کہ متحدہ قائد الطاف حسین کی جانب سے شاہد حامدکو قتل کرنے کے احکامات دئیے گئے۔ ایم کیو ایم لندن کے ندیم نصرت کی جانب سے یہ احکامات صولت مرزا کو دئیے گئے۔ 5 جولائی 1997ء کو صولت مرزا، مہناج قاضی اور راشد نے شاہد حامد کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
فائرنگ سے شاہد حامد، ان کا گن مین خان اکبر اور ڈرائیور اشرف بھی ہلاک ہوئے۔ منہاج قاضی کو 2016ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ منہاج قاضی پر 2018 میں فرد جرم عائد ہوئی تھی جس کے بعد ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع کیا گیا۔ مقدمہ میں مفرور بانی ایم کیو ایم الطاف حسین، ندیم نصرت، سہیل زیدی اور دیگر کے دائمی (تاحیات) وارنٹ بھی جاری کیے جاچکے ہیں۔ قتل کے مرکزی ملزم صولت مرزا کو جرم ثابت ہونے پر پھانسی دی جا چکی ہے۔