کابل: افغانستان کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ نے اپنی سینئر قیادت سے افغان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان کے اسکول جانے کا مطالبہ کردیا۔
طالبان کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ نے افغان لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہ دینے کی موجودہ پالیسی کے خلاف بات کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اس پالیسی کو تبدیل کریں جس کی وجہ سے افغانستان باقی دنیا سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغان صوبے خوست میں مدرسے کی گریجویشن تقریب سے خطاب کے دوران نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کو شریعت کے خلاف قرار دیا۔
افغان نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ملک میں 20 ملین شہریوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ، افغانستان کی 40 ملین کی آبادی میں 20 ملین خواتین ہیں جن کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔
شیر محمد عباس نے سوال اٹھایا کہ کیا فیصلے کے روز ہم سب ایک ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے؟ جہاں ہم سب بے بس ہوں گے، ہم نے لڑکیوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کردیا ہے، ان کے پاس کوئی وراثتی حق نہیں اور ان کے شوہروں سے متعلق بھی ان کے پاس کوئی حق نہیں ہے، یہ زبردستی کی شادیوں پر بھی قربانی دیتی ہیں۔
ائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، وہ مساجد نہیں جاسکتیں، ان پر اسکولوں اور یونیورسٹیز کے دروازے بند ہیں حتیٰ کہ ان کو مذہبی اسکولوں تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے۔
شیر عباس نے کہا کہ وہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کی کوئی وضاحت موجود نہیں لہٰذا ریاست کے رہنما لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے کھولیں، اس کے لیے کوئی بھی قابل قبول جواز موجود نہیں اور نہ کبھی ہوگا۔