بنکاک: میانمار کی ریاست کرن میں ٹیلی کام فراڈ مراکز میں کام کرنے والے 250 سے زائد غیر ملکیوں کو ایک نسلی مسلح گروہ نے رہا کر کے تھائی لینڈ منتقل کر دیا ہے۔ ان افراد میں سے نصف سے زائد کا تعلق افریقی اور ایشیائی ممالک سے ہے۔ انہیں تھائی فوج نے وصول کیا اور اب ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا وہ انسانی اسمگلنگ کے شکار ہوئے یا نہیں۔ رہائی پانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد (138) ایتھوپیا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ 12 پاکستانی شہریوں کو بھی رہائی ملی ہے۔
رہائی پانے والوں میں 221 مرد اور 39 خواتین شامل تھیں، جن کا تعلق ایتھوپیا، کینیا، فلپائن، ملائیشیا، پاکستان، چین، انڈونیشیا، تائیوان، نیپال، یوگنڈا، لاؤس، برونڈی، برازیل، بنگلہ دیش، نائجیریا، تنزانیہ، سری لنکا، بھارت، گھانا اور کمبوڈیا سے تھا۔
گزشتہ ہفتے تھائی وزیر اعظم پیتونگترن شیناوترا نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور میانمار، تھائی سرحد پر بڑھتے ہوئے فراڈ سینٹرز کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا وعدہ کیا۔ ان کی حکومت نے سرحد پر بجلی اور ایندھن کی ترسیل روک دی ہے اور بینکنگ اور ویزا قوانین مزید سخت کر دیے ہیں تاکہ دھوکہ دہی کے نیٹ ورکس کو مزدوروں اور رقم کی منتقلی سے روکا جا سکے۔
حکام کے مطابق غیر ملکی کارکنوں کو عموماً اچھے معاوضے کی پیشکش کر کے ان سینٹرز میں لایا جاتا ہے یا انہیں یہ کہہ کر دھوکہ دیا جاتا ہے کہ وہ میانمار میں نہیں بلکہ تھائی لینڈ میں کام کریں گے۔ ان مراکز میں زیادہ تر ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے جو انگریزی یا چینی زبان میں مہارت رکھتے ہیں تاکہ وہ سائبر فراڈ میں ملوث ہو سکیں۔
یہ افراد آن لائن فراڈ کے مختلف طریقوں، جیسے "لوو اسکیم”(جسے "پگ بچرنگ” بھی کہا جاتا ہے)، کرپٹو فراڈ، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی جوئے جیسے جرائم میں زبردستی ملوث کیے جاتے ہیں۔ کچھ افراد اپنی مرضی سے یہ کام کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو قید میں رکھا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے ان کے اہل خانہ سے بھاری رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ بعض فرار ہونے والے افراد نے جسمانی تشدد کی بھی شکایت کی ہے۔