کراچی: مصطفیٰ کو قتل کے بعد نہیں جلایا، زندہ کو ہی آگ لگائی تھی، ملزم شیراز نے دوران تفتیش رونگھٹے کھڑے کردینے والا انکشاف کردیا۔ ملزم کے مطابق مصطفی اور ارمغان میں لڑکی کے معاملے پر جھگڑا تھا۔ ارمغان نے مصطفی کو بہانے سے گھر بلوایا۔ ہم نے راڈ سے تین گھنٹے تشدد کیا۔ نیم بے ہوش مصطفیٰ کو منہ پرٹیپ لگا کرحب لے گئے۔ گاڑی کی ڈگی میں نیم بیہوشی کی حالت میں ہی جلا ڈالا۔
کراچی میں نوجوان مصطفی عامر کا قتل کیوں اور کیسے ہوا؟ آج نیوز ہولناک قتل کے چشم کشا انکشافات سامنے لے آیا، مصطفی اور ارمغان میں لڑکی کے معاملے پر جھگڑا تھا، ارمغان اور شیراز نے بنگلے پر3 گھنٹے تک مصطفیٰ پر تشدد کیا، پھر ملزمان اسے حب لے گئے اور زندہ شخص کو پیٹرول چھڑک کر گاڑی کے ساتھ جلا دیا۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس بیورو اور سی آئی اے نے مصطفی اغوا کیس حل کرنے میں اہم کردار سامنے آیا ہے، ملزم شیراز نے تحقیقات میں سب کچھ اگل دیا، ارمغان نے مصطفیٰ کو بہانے سے گھر بلوایا، دونوں نے لوہے کی راڈ سے 3 گھنٹے تشدد کیا۔
مصطفیٰ کو نیم بیہوش کرنے کے بعد منہ پر ٹیپ باندھ دی، مصطفی کو لے کر شیراز، ارمغان کیماڑی سے حب پہنچے، دھوراجی سے 2 کلو میٹر دورپہاڑی کے قریب گاڑی روکی۔
ملزمان نے ڈگی کھولی تو اسوقت تک مصطفیٰ زندہ تھا، دونوں ملزمان نے ڈگی میں پڑے مصطفیٰ پرپیٹرول چھڑکا، دونوں نے دور کھڑے ہوکر لائٹر جلا کر مصطفی پر پھینکا۔
آگ لگانے کے بعد ملزمان 3 گھنٹے پیدل چلتے رہے، کسی نے لفٹ نہ دی تو سوزوکی پک اپ والے کو2 ہزار روپے دے کرکراچی میں فورکے چورنگی پہنچے اور پھررکشہ کیا۔
مصطفٰی کی جلی ہوئی لاش اور گاڑی حب سے ملی
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے مصطفی اغواء کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، دھورا جی پولیس نے حب کے مقام سے مصطفٰی کی جلی ہوئی لاش اور گاڑی برآمد کرلی، ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز نے دوران تفتیش قتل کا انکشاف کردیا۔
دھوراجی پولیس کو مصطفی کی گاڑی جیسی گاڑی حب کے قریب گنجان مقام سے ملی، گاڑی کے اندر ایک جلی ہوئی لاش بھی موجود ہے، جبکہ گاڑی بھی مکمل طور پر جلی ہوئی ہے۔
پولیس تحقیقات کر رہی ہے کہ جلی ہوئی گاڑی مصطفی کی ہی ہے یا نہیں، ملنے والی گاڑی کی شناخت کو مکمل مٹا دیا گیا، ایس ایچ او دھوراجی کا کہنا تھا کہ گاڑی 11 جنوری کو جلی ہوئی ملی تھی اور گاڑی کی اندر جلی ہوئی لاش بھی تھی، لاش کو سردخانے منتقل کیا گیا۔
گزشتہ روز مصطفیٰ کی والدہ کا ڈی این اے لیا گیا تھا، پولیس کے مطابق لاش اور مصطفیٰ کی والدہ کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھیجوائے جا چکے ہیں۔
تفتیشی حکام کے مطابق ڈی این اے کو جائے وقوعہ سے ملنے والے خون سے میچ کیا جائے گا، کرائم سین یونٹ نے ارمغان کے گھرسے خون کے نمونے لیے تھے اور کارپیٹ سے پولیس کو خون ملا تھا۔
واضح رہے کہ مصطفیٰ 6 جنوری کو لاپتا ہوا، جس کے بعد اس کی والدہ نے پولیس سے رابطہ کیا لیکن ان کے مطابق پولیس نے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔
تاہم بعدمیں پولیس نے اغوا کا مقدمہ درج کرکے 8 فروری کو ڈیفنس میں بنگلے پر چھاپہ مارا، جہاں سے ملزم ارمغان کو گرفتار کیا گیا اور بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں۔
قالین سے خون اور مصطفی کا موبائل فون ملا
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصطفی کے اغوا کا کیس اہم کیس ہے، اس کیس میں بہت سے کنفیوژن تھی۔
انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ 23 سال کا نوجوان تھا، 6 جنوری کو مصطفی عامر لاپتہ ہوا، 7 کو مقدمہ درج ہوا، سائوتھ پولیس نے ابتدا میں کوشش کی، تاوان کی کال آنے پر کیس ہمارے پاس آیا۔
مقدس حیدر نے کہا کہ سی پی ایل سی پہلے دن سے کیس پر کام کر رہی تھی، 26,27 جنوری کے بعد سے سی آئی اے نے سی پی ایل سی کے ہمراہ کام کیا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos