فائل فوٹو
فائل فوٹو

کرکٹ کی تباہی ناکام سرجری کا شاخسانہ قرار

عبداللہ بلوچ :

پاکستان کرکٹ ٹیم کی بطور میزبان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے شرمناک اخراج کے بعد پی سی بی افسران اور کھلاڑیوں پر تنقید کا سلسلہ اب تک تھم نہیں سکا۔

اس ضمن نے ”امت“ نے سابق کرکٹرز اور پی سی بی کے ایک اہلکار سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ پاکستان کرکٹ کی تباہی ناکام سرجری کا نتیجہ ہے۔ اس کے براہ راست ذمہ دار پاکستانی ٹیم انتظامیہ اور چیئرمین بورڈ ہیں۔ پی سی بی ہیڈ کوارٹر نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرائی نیشن سیریز سے چیمپئنز ٹرافی تک سلیکشن کمیٹی کا کردار ربر اسٹمپ رہا۔ ٹیم منتخب کرنے کا اختیار صرف سلیکشن کمیٹی کے رکن اور ہیڈ کوچ عاقب جاوید تک محدود رہا۔ پانچ سے آٹھ لاکھ تنخواہ لینے والے دیگر سلیکٹرز کے پاس اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ عاقب جاوید کے سلیکٹڈ کھلاڑیوں کی قابلیت پر سوال اٹھائیں۔

ٹرائی نیشن سیریز کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ناکامی کے بعد سابق کپتان اظہر علی اور سابق ایمپائر علیم ڈار نے ٹیم میں اسپیشلسٹ اسپنر کی کمی، بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی اور بعض کھلاڑیوں کی اوسط درجے کی فٹنس کے حوالے سے چیئرمین بورڈ محسن نقوی کو آگاہ کیا تھا۔ پی سی بی چیئرمین سے براہ راست رابطہ کرنے پر ہیڈ کوچ و سلیکٹر عاقب جاوید نے سلیکٹرز پر برہمی کا اظہار کیا اور ان پر بائی پاسنگ حربوں کا الزام بھی عائد کیا۔

ساتھ ہی چیئرمین پی سی بی کو یقین دلایا کہ اسی ٹیم کے ذریعے وہ ٹرافی نیشن سیریز جیت کر آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا شاندار طریقے سے آغاز کریں گے۔ جب پاکستانی ٹیم نے جنوبی افریقی ٹیم کے خلاف 350 رنز سے ٹوٹل چیز کیا تو محسن نقوی نے عاقب جاوید کو تھپکی دی اور انہیں سلیکشن معاملات پر مکمل فری ہینڈ دیدیا۔ تاہم ٹرائی نیشن کے فائنل اور چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ سے شکست اور فخز زمان کی انجری کے بعد سلیکشن کمیٹی نے ایک بار پھر چیئرمین پی سی بی سے رابطہ کرتے ہوئے ہوئے ایک اور وارننگ جاری کی۔ ساتھ ہی تجویز دی گئی کہ بھارت کے خلاف اسی اسکواڈ کے ساتھ میدان میں اترنا ہائی رسک ہوسکتا ہے۔ سلیکٹرز نے ٹیسٹ اسپنر ساجد خان کو آزمانے کی تجویز دی۔ جبکہ بابر اعظم کو ون ڈاﺅن پوزیشن، اوپنرز کیلئے امام اور خوشدل شاہ کو آزمانے کا بھی مشورہ دیا جبکہ حارث رﺅف کی جگہ محمد حسنین کو حتمی الیون کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی۔

محسن نقوی نے دبئی روانگی سے قبل فون پر عاقب جاوید کو سلیکٹرز کی سفارشات سے دوبارہ آگاہ کیا تو ہیڈ کوچ و سلیکٹر عاقب جاوید نے ان تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر محسن نقوی کو یقین دلایا کہ کینڈیشن کے اعتبار سے منتخب کھلاڑی بھارت کے خلاف مقابلے کے اہل ہیں۔ اگر عین موقع پر اسکواڈ میں زیادہ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو نئے آنے والے کھلاڑی دباﺅ کی وجہ سے پرفارم نہیں کر پائیں گے۔ محسن نقوی کھلاڑیوں کی صورتحال جانچنے کیلئے دبئی آئے۔ یہاں انہوں نے کپتان، کوچ سمیت دیگر کھلاڑیوں اور ٹیم انتظامیہ میں شامل تمام اراکان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کی حتمی رائے دریافت کی۔ جس پر سب نے موجودہ اسکواڈ کو تسلی بخش قرار دیا۔ تاہم بھارت سے میچ میں ناکامی کے بعد عاقب جاوید نے ناکامی کا ملبہ بالرز اور سینئر بلے بازوں پر گرانے کی کوشش کی۔

بھارت کے خلاف شکست کے اصل ذمہ داری عاقب جاوید اور محسن نقوی پر عائد ہوتی ہے۔ بیک وقت دو کشتیوں پر سوار ہونے کی وجہ سے محسن نقوی کی توجہ ٹیم کی تشکیل کے بجائے چیمئنز ٹرافی کیلئے اسٹیڈیمز کی تعمیر نو پر مرکوز تھی۔ انہوں نے ٹیم کے انتظامی امور میں عاقب جاوید کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔

اس حوالے سے سابق ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل نے ”امت“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”افسوس ہے کہ 29 برس بعد آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی شائقین کرکٹ کیلئے خوشی کے بجائے غم و غصہ کی وجہ بن گئی ہے۔ پی سی بی افسران اور کھلاڑی پاکستان کرکٹ کی تباہی کے برابر کے شریک ہیں“۔ سابق فاسٹ بالر شبیر احمد نے کہا ”پاکستان کرکٹ اب بھی لابی سسٹم کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔ اسکواڈ سلیکشن میں سلیکٹرز کے بجائے پلیئرز ایجنٹ کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ٹیم میں موجود ایک ٹولہ باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے آنے نہیں دیتا۔ خوشدل شاہ ہارڈ ہٹر اوپنر بلے باز ہیں۔ انہیں چھٹے نمبر پر کیوں کھیلا جارہا ہے۔ طیب طاہر کو بھی اس کی نیچرل پوزیشن پر کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

امام الحق کو اہم میچ میں دس رنز بنانے کیلئے 30 لاکھ روپے خرچ کرکے دبئی بلایا گیا۔ فہیم اشرف کو جب آزمانا نہیں تھا تو اسکواڈ میں ایک اضافی اسپنر ہی شامل کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ بھارت پہلے ہی پاکستانی ٹیم کی بچی کھچی کسر نکال چکا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بنگلہ دیش بھی پاکستان کے خلاف آخری میچ میں موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنا ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہوجائے“۔ ادھر سابق کپتان محمد حفیظ نے شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رو¿ف کو ٹیم سے فارغ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے کہا ”اتنی مار کبھی کسی پاکستانی بالر نے نہیں کھائی، جتنی یہ تینوں بالرز کھا رہے ہیں۔

یہ تینوں ہی 2023ءکے ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈکپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اور اب چیمپئنز ٹرافی میں اچھی پرفارمنس دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور دوسرے بالرز جیسے محمد علی، خرم شہزاد، محمد وسیم جونیئر، عاکف جاوید اور میر حمزہ کو موقع دیں۔ یہ کھلاڑی اپنے مواقع کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بھی پاکستانی ہیں اور ایک موقع کے مستحق ہیں۔ بابر گزشتہ 10 برس سے پاکستان کیلئے کھیل رہے ہیں۔ لیکن وہ پاکستان کو بھارت کے خلاف ایک بھی فتح دلانے میں مدد نہیں دے سکے“۔