تہران : خطے میں بڑھتی کشیدگی اور ایران کو امریکی انتباہات کے درمیان نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کے مطالبے کے باوجود ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے زور دے کر کہا ہے کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ اس وقت تک بات چیت نہیں کر سکتا جب تک کہ کچھ تبدیلیاں نہیں آتیں۔
نجی سوشل میڈیا ویب سائٹ العربیہ اردو کے مطابق انہوں نے اتوار کو ایران کی آن لائن نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ "واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات سے انکار ضد نہیں بلکہ تاریخ اور تجربے کا نتیجہ ہے”۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ 2015ء کے جوہری معاہدے کو اس کی موجودہ شکل میں بحال نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے ایک ماڈل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ملک کی جوہری صورتحال میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ امریکی فریق کے ساتھ کسی بھی مذاکرات کا سب سے اہم مقصد پابندیوں کو ہٹانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ایران نے ہمیشہ جنگ سے گریز کیا ہے اور اس کا خواہاں نہیں ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ وہ اس کے لئے تیار ہے اور اس سے خوفزدہ نہیں ہے“۔عراقچی نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عمان کے راستے تہران کو بھیجے گئے پیغام کو اس کے جوہری پروگرام سے زیادہ خطرہ قرار دیا۔
دریں اثنا ایک امریکی اہلکار اور دو دیگر باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو لکھے گئے خط میں نئے جوہری معاہدے تک پہنچنے کے لئے دو ماہ کی ڈیڈ لائن بھی شامل ہے۔
تاہم خامنہ ای نے گزشتہ جمعے کو اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکی دھمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ تہران نے کسی بھی فوجی کارروائی کے سنگین نتائج سے بھی خبردار کیا ہے۔