’’ول فل ڈیفالٹ ایکٹ‘‘ کے تحت ایف آئی اے براہ راست مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں کر سکتی ہے، فائل فوٹو
 ’’ول فل ڈیفالٹ ایکٹ‘‘ کے تحت ایف آئی اے براہ راست مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں کر سکتی ہے، فائل فوٹو

بزنس ٹائیکونز کی لڑائی ایف آئی اے تک پہنچ گئی

عمران خان :

کراچی کے بڑے بزنس گروپ کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ دو بڑے بزنس مینوں کے درمیان پرانی رنجش کے نتیجے میں معاملہ ایف آئی اے تک پہنچا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کو تاجروں کے درمیان مالی لین دین کے معاملات نمٹانے اور وصولی کو یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ بینک ڈیفالٹرز کے خلاف موثر کارروائی کے لیے ’’ول فل ڈیفالٹ ایکٹ‘‘ ایف آئی اے کے دائرہ کار میں موجود ہے۔ جس میں براہ راست مقدمہ درج کر کے گرفتاریاں کی جاسکتی ہیں۔ تاہم معاملات کو انکوائریوں میں رکھ کر فریقین پر دبائو ڈالنے کے علاوہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کو بھی دونوں جانب سے ’’وصولی‘‘ میں آسانی مل جاتی ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں کراچی کے معروف بزنس مین محمد حنیف مچھیارا کے بیٹے فرحان حنیف اور فیملی کی تین خواتین کے خلاف بینکنگ کرائمز کی انکوائری شروع کی گئی ہے۔ یہ انکوائری ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں درج کی گئی ہے۔ جس میں معروف ٹیکسٹائل کمپنی ڈینم کلاتھنگ کو نامزد کیا گیا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے لیے بھاری بینک قرضہ لیا گیا۔ تاہم یہ قرضہ واپس نہیں کیا گیا۔ جب کہ قرضہ لینے کے لیے بھی جعلسازی کی گئی۔

معلوم ہوا ہے کہ ڈینم کلاتھنگ کے حوالے سے یہ انکوائری ایک نجی بینک کی انتظامیہ کی جانب سے تحریری شکایت پر درج کی گئی ہے۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے کمرشل بینکنگ سرکل کے انکوائری افسر کی جانب سے تمام نجی بینکوں کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بینک اسلامی کے سینئر افسر محمد شاہد اور منیجر زبیر احمد کی تحریری شکایت کے بعد ڈینم کلوتھنگ کے ڈائریکٹرز اور ان کے معاونین فرحان، محمد حنیف مچھیارا، ماریہ فرحان، اقرا حنیف اور اقصیٰ سلیمان باوانی کے خلاف انکوائری نمبر 98/2024 درج کی گئی ہے۔

مزید معلوم ہو اہے کہ ایف آئی اے نے تمام کمرشل بینکس کے برانچ مینیجرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ تحقیقاتی افسر کے سامنے مذکورہ افراد کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات اور 8 جنوری 2025ء سے پہلے کی تصدیق شدہ دستاویزات کے ساتھ پیش ہوں۔ ان دستاویزات میں اکائونٹ اوپننگ فارمز، سیونگ سرٹیفکیٹس، قومی شناختی کارڈ کی کاپیاں، مکمل ڈیبٹ اور کریڈٹ وائوچرز، انٹر بینک فنڈ ٹرانسفر وائوچر، اکائونٹ نمبرز، بینک ڈیبٹ و کریڈٹ کارڈز اور تازہ ترین اکائونٹ اسٹیٹمنٹس شامل ہیں۔

ایف آئی اے نے بینکوں کو یہ بھی رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے کہ آیا ان افراد کے پاس کوئی لاکر اکائونٹس ہیں یا انہوں نے کوئی دیگر مالی سہولیات حاصل کی ہیں؟ اس کے علاوہ، ایف آئی اے نے ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد کی کسی بھی کریڈٹ یا ڈیبٹ ٹرانزیکشن کی فوٹو کاپیاں بھی طلب کی ہیں۔ جن کے ساتھ متعلقہ بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔

اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ حنیف مچھیارا جب اپنے دیگر بھائیوں اور والد سے علیحدہ ہو کر اپنا بزنس شروع کرنے لگے تو انہوں نے متعدد بینکوں سے بھاری قرضے لیے تھے۔ بعد ازاں ان کے بیٹے کی جانب سے بھی مختلف بینکوں سے قرضے لیے گئے جن کا حجم بعد ازاں مبینہ طور پر بیس ارب روپے تک پہنچ گیا۔ تاہم اس کی تصدیق ایف آئی اے کی جانب سے تمام بینکوں سے طلب کیے گئے ریکارڈ سے ہی ہوسکے گی۔

اس دوران حنیف مچھیارا ٹیکسٹائل کے ساتھ ہی رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے میں بھی آگئے تھے۔ اس دوران یہ معروف بزنس مین جہانگیر صدیقی کے ساتھ ریکس چورنگی پر بننے والے جے ایس ٹاور میں شراکت دار بھی رہے۔ تاہم اس وقت جہانگیر صدیقی کے ملک کی اہم شخصیت اور پیپلز پارٹی کے بڑے رہنما کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے، جس کی وجہ سے انہیں اس ٹاور کی دستاویزات سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس وقت حنیف مچھیارا کو مبینہ طور پر اس کا فائدہ بھی ہوا۔

ذرائع کے مطابق کچھ ہی عرصہ قبل جہانگیر صدیقی جو پہلے سے جے ایس بینک کے نام سے ایک نجی بینک کے مالک ہیں، وہ ایک اور نجی بینک کے مالک بھی بن گئے۔ بعد ازاں اثر و رسوخ استعمال کرکے اس نجی بینک سے لیے گئے قرضے مچھیارا فیملی سے واپس لینے کی کوشش کی جاتی رہی، تاہم اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ بعد ازاں اس معاملے کو ایف آئی اے کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں حنیف مچھیارا کے خاندان کے خلاف ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں باقاعدہ انکوائری درج کرادی گئی۔

ذرائع کے مطابق اس وقت ایف آئی اے کے ملک بھر کے سرکلوں میں کئی تاجروں، بزنس مینوں اور سیاست دانوں کے حوالے سے بینکوں سے قرضے لینے اور واپس نہ کرنے کی انکوائریاں درج ہیں۔ تاہم لمبے عرصہ سے ان پر مقدمات درج نہیں کئے جاسکے ہیں۔ کیونکہ ان معاملات میں ایک جانب بینک انتظامیہ کی نیت کا عمل دخل ہونے کے ساتھ ہی ایف آئی اے کے متعلقہ افسران کی خواہش بھی شامل ہوتی ہے۔ ساتھ ہی انکوائریوں میں نامزد افراد بھی یہی چاہتے ہیں کہ معاملات لٹکے رہیں اور انہیں ریلیف ملتا رہے۔ جب کہ ایف آئی اے کے افسران کیس کرانے والے مدعی سے بھی معاملات طے کر لیتے ہیں۔ اس کے عوض موثر کارروائی کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب نامزد افراد سے بھی ان پر ہلکا ہاتھ رکھنے اور انہیں ریلیف دینے کی سیٹنگ کرلی جاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ول فل ڈیلافٹ ایکٹ کے نام سے ایک قانون منظور ہو کر نافذ العمل ہے جو ایف آئی اے کے دائرہ کار میں دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی بینک کی انتظامیہ، قرضے لے کر واپس نہ کرنے والوں کے خلاف شکایت درج کروا کر فوری مقدمہ درج کرواسکتی ہے۔ جس میں نہ صرف قرضے کی ریکوری ہوسکتی ہے، بلکہ ملزمان کو سزائیں بھی مل سکتی ہیں۔ تاہم یہ قانون موجود ہونے کے باجود دونوں جانب سے اس کا استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بااثر افراد اربوں روپے کے قرضے بینکوں سے لے کر واپس نہیں کرتے۔ بلکہ کئی تو قرضے دبا کر بیٹھ جانے کے ساتھ انہیں معاف بھی کروایتے ہیں۔ اس طرح ایف آئی اے کو صرف فریقین، آپس کے لین دین کے تنازعات نمٹانے اور وصولیوں کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔