محمد اطہر فاروقی :
انسانی مِلک بینک کا قیام جون 2024ء میں کراچی میں کیا گیا تھا۔ تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات کے بعد اسے 22 جون 2024ء کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا۔ جامعہ بنوری ٹائون نے مشروط اجازت دینے سے متعلق مارچ 2025ء کے آخر میں نیا فتویٰ جاری کیا۔ اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک اجلاس گزشتہ ماہ ہوا، جس میں ہیومن مِلک بینک کے قیام کی اجازت دینے یا نہ دینے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔ تاہم کونسل کے آئندہ اجلاس میں کوئی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔ اجلاس میں ماہرین صحت سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین و اراکین کو انسانی ملک بینک کے حوالے سے مکمل تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ کونسل اراکین کی جانب سے اس موضوع سے متعلق 33 سوالات بھی کیے گئے۔
انسانی ملک بینک کا آغاز کراچی کے علاقے کورنگی میں محکمہ صحت سندھ کے ماتحت چلنے والے سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی (ایس آئی سی ایچ این) نے یونیسف کے تعاون سے کیا تھا۔ ہیومن ملک بینک کا قیام جون 2024ء کے شروع میں کیا گیا جس کے بعد مذہبی حلقوں کی جانب سے رضاعی بہن بھائی کے معاملے پر اعتراضات کیے گئے تو ایس آئی سی ایچ این نے دارلعلوم کراچی کا فتویٰ سامنے رکھا جس میں چند شرائط کے ساتھ اجازت دی گئی تھی۔
البتہ اعتراضات کے بعد فتوے پر دوبارہ غور فکر کرتے ہوئے دارلعلوم کراچی نے ملک بینک کے قیام کو ناجائز قرار دیا۔ 22 جون 2024ء کو ایس آئی سی ایچ این نے ہیومن ملک بینک کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کرتے ہوئے معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیج دیا۔ جبکہ ستمبر میں اسمبلی میں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ کورنگی میں ایک ملک بینک قائم کیا گیا ہے، جس کے تحت تین سے زیادہ بچوں کو دودھ فراہم نہیں کیا جاتا۔ ڈونر ماں اور بچے کی فیملی کا ڈیٹا یقینی بنایا گیا تھا۔ تاکہ رضاعی بہن بھائی کی پہچان ہوسکے۔ لیکن رضاعی بہن بھائی کے معاملے پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، جس پر نادرا اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مینز کو بھی خطوط لکھے گئے ہیں، تاکہ اس مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بورڈ کی تشکیل کے بعد فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔ لیکن ہیومن ملک بینک کے فعال کے لئے پس پردہ کوششیں کی گئیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مفتی زبیر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس 26 مارچ 2025ء کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ اینڈ نیوناٹالوجی کے چار ماہرین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ماہرین کی جانب سے انسانی دودھ کے بینک کے قیام کے حوالے سے اس کی ضرورت اور بچوں کو دودھ نہ ملنے سے پاکستان میں ہونے والی سالانہ اموات کے اعداد و شمار کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا، جس کے بعد چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور اراکین کی جانب سے ماہرین سے اس موضوع پر 33 سوالات کیے گئے جن کے جوابات انہوں نے دیے۔
سوالات و جوابات کے سیشن کے بعد اراکین کے درمیان اس موضوع پر بات کی گئی۔ اراکین کی موجودگی میں ممبر اسلامی نظریاتی کونسل مفتی زبیر نے بنوری ٹائون کی جانب سے حال ہی میں انسانی دودھ بینک کے قیام پر جاری کردہ فتوے کی نشاندہی کی اور چیئرمین نے اس موضوع سے متعلق تمام اراکین کو اپنی طرف سے ریسرچ اور مزید شرعی حیثیت کے حوالے سے جانچ پڑتال کا کہا گیا اور اجلاس کے آخر میں ہی ایک اور اجلاس کا اعلان کیا اور اسی میں حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
مفتی زبیر نے بتایا کہ ابھی تک انسانی دودھ کے بینک کے قیام کی اجازت کا نہ کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی اس متعلق فی الحال کوئی بات کی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت ہوگا۔ اگلے اجلاس میں تمام اراکین کی بات کو سننے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
مارچ 2025ء کے آخر میں ایک بار پھر ہیومن ملک بینک انتظامیہ نے بنوری ٹائون سے ہیومین ملک بینک کے متبادل ایک صورت کا ذکر کرتے ہوئے فتویٰ مانگا۔ فتوے میں سوال کیا گیا کہ گزشتہ دنوں وقت سے پہلے پیدا ہونے والے ایسے بچے جن کو اپنی ماں یا کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو، ان کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہیومن ملک بینک کے حوالے سے سوال کیا تھا،
مختلف علمائے کرام کی طرف سے تحفظات کی بنیاد پر اس ملک بینک کو اب تک قائم نہیں کیا گیا۔ حال میں ہی جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے بھی دیگر علمائے کرام کی تائید میں عدمِ جواز کا فتویٰ موصول ہوا (فتویٰ نمبر:144604100427) اور ماضی قریب میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے بھی ملک بینک کے قیام سے منع کیا گیا ہے (فتویٰ نمبر:2604/40)، دوسری طرف ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ایسے ضرورت مند بچوں کی جان بچانے کیلئے ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کی فکر بھی لاحق تھی۔ اس لیے علمائے کرام کی طرف سے منع کرنے کے بعد ملک بینک کے قیام کو معطل کرکے اس کی بجائے فتویٰ میں جو طریقہ بتایا گیا ہے (دائی خواتین کا انتظام کیا جائے) اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سوال میں اس متبادل کے خدوخال علمائے کرام کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے کہ کہیں اس متبادل میں شرعی لحاظ سے کوئی تسامح اور کوتاہی نہ رہ جائے۔
متبادل کے بیان سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تمام اسپتالوں میں جو طریقہ بالعموم رائج ہے، اس کو بیان کردیا جائے۔ وقت سے پہلے جو بچے پیدا ہوتے ہیں یا جن کا وزن پیدائش کے وقت دو کلو سے کم ہوتا ہے اور ان میں دودھ چوسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، ایسے تمام بچوں کو ٹیوب کے ذریعہ دودھ دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی مائیں اپنا دودھ فیڈر میں جمع کرکے اسٹاف کے حوالے کردیتی ہیں اور یہ اسٹاف اس دودھ پر بچہ کے نام وغیرہ کا اسٹیکر لگا کر اس کو فریج میں رکھ دیتا ہے اور فیڈ کروانے کے وقت اسٹاف ہر بچہ کو اس کیلئے رکھا ہوا مخصوص دودھ ٹیوب کے ذریعہ پلاتا ہے۔
خود خواتین کیلیے پلانا عام طور سے ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ اول تو ٹیوب کے ذریعہ دودھ پلانا ان کیلئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے (فیڈنگ ٹیوب بچہ کے معدہ میں ہی جانا ضروری ہے) پھر بچے کو فیڈ کی ضرورت ہر دو سے تین گھنٹے بعد پڑتی ہے اور کسی بھی خاتون کیلئے کئی دن مستقل اسپتال میں چوبیس گھنٹے موجود رہنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ تقریباً ایک دن یا آدھے دن کی خوراک ایک ساتھ جمع کروا دیتی ہیں۔ یہ طریقہ کار تقریباً تمام اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ جن بچوں کو اپنی ماں یا کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہیں ہوتا، اس کے گھر والے اس حوالے سے بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور کبھی پیسے دے کر اور کبھی منت سماجت کرکے دوسری خواتین کو راضی کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو دودھ پلادیں۔
یہ کوشش کبھی کامیاب ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ اور اسی وجہ سے ہیومن ملک بینک کے قیام کا سوچا گیا تھا۔ اب اگر اس ملک بینک کی بجائے یہ کام کیا جائے کہ جس مخصوص جگہ (فیڈنگ روم) میں یہ خواتین اپنے بچوں کیلیے دودھ فیڈر میں دیتی ہیں، وہاں مسلم اسٹاف کی ذمہ داری لگادی جائے، جو ان تمام خواتین کے دودھ پر ٹیگ لگانے اور علیحدہ رکھنے کی موجودہ پریکٹس کے ساتھ ساتھ ان خواتین کو اس بات کی بھی ترغیب دیں کہ وہ کسی ایک بچہ کو دودھ پلانے کی ذمہ داری لے لیں۔ جو خواتین راضی ہوجائیں، ان کی تفصیلات نوٹ کرلی جائیں، لیکن ان سے فی الحال کسی اور بچے کے لیے دودھ نہ لیاجائے۔ پھر جب ضرورت پیش آئے تو ایک بچے کیلئے ایک خاتون سے رابطہ کیا جائے کہ جس طرح آپ اپنے بچے کیلئے دودھ جمع کروارہی ہیں ایسے ہی ایک اور بچہ کیلئے بھی جمع کروادیں۔
ایسے بچے جن کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو دودھ میسر نہیں ہوتا، ان کی تعداد ہر روز ہمارے زیرِ انتظام اسپتال میں اوسطاً 6 سے 8 ہوتی ہے۔ جبکہ ان بچوں سمیت شیر خوار بچوں کی تعداد 50 سے زائد ہوتی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ 6 سے 8 خواتین اس پر راضی ہوجائیں۔ البتہ جو احتیاطی تدابیر ہیومن ملک بینک کے قیام میں اختیار کی گئیں تھیں، ان کی بھی پوری پابندی کی جائے مثلًا یہ کوشش صرف ان بچوں کیلئے کی جائے جو وقت سے پہلے یا بہت کم وزن کے پیدا ہوئے ہوں اور ان کو اپنی ماں یا کسی دوسری رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو۔ آن ڈیوٹی ڈاکٹر مندرجہ بالا باتوں کی تحریری تصدیق کریں۔ تمام کام کی نگرانی کسی عالمِ دین کے ذمہ ہو۔ تمام ڈیٹامحفوظ رکھا جائے اور دونوں خاندانوں کو تحریری ڈیٹا دینے کے ساتھ مسئلہ رضاعت بھی تحریری شکل میں دیا جائے اور زبانی مسئلہ بھی سمجھا دیا جائے۔
اس سارے کام کی کوئی علیحدہ سے فیس نہیں لی جائے گی، نہ ہی دودھ فراہم کرنے والی خاتون کو اجرت دی جائے۔ حتی الامکان مسلم بچوں کو غیر مسلم خواتین کا دودھ نہ دیاجائے۔ کوشش کی جائے گی کہ دودھ فراہم کرنے والی خاتون کا بچہ اگر لڑکا ہو تو ان کا دودھ کسی لڑکے کو ہی دیا جائے اور اگر لڑکی ہو تو جس بچہ کو ان کا دودھ دیا جائے وہ بھی لڑکی ہو۔ ان شرائط کے علاوہ اضافی شرط یہ بھی ہوگی کہ ایک خاتون کا دودھ صرف ایک بچے کو ہی دیاجائے، مختلف خواتین کا دودھ مکس نہ کیا جائے۔ ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے، پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچہ کیلیے اسٹور کرکے نہ رکھا جائے۔کیا ان تمام شرائط کے ساتھ اس متبادل پر شرعاً عمل کرنا درست ہے؟ کیونکہ معاملہ انسانی زندگی بچانے کا ہے۔ اس لیے ملک بینک کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں کسی متبادل کی سخت ضرورت ہے۔
اس متبادل کو اختیار کرنے کی صورت میں کئی سارے اعتراضات جو ملک بینک کے حوالے سے تھے ختم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ضرورت پیش آنے سے پہلے انتظام کرلینا، مختلف خواتین کے دودھ کو یکجا کرنا، ملک بینک کے لیے دودھ فراہم کرنے والی خواتین کی عدم دستیابی اور بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت کی رعایت نہ ہونا وغیرہ۔ ان تمام خرابیوں کے دور ہوجانے کے بعد بھی جو خدشہ رہ جاتا ہے کہ ادارہ تو تمام ریکار ڈ محفوظ کرسکتا ہے، لیکن ممکن ہے لوگ اس کی رعایت نہ کریں، کسی انسانی جان بچانے کے وقت اس موہوم خدشہ کا تحمل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ یہ خدشہ فی نفسہ عرب میں جس رضاعت کا دستور تھا بہر حال اس میں بھی تھا، بلکہ صرف وہم کے درجے میں نہیں.
ایک بار ایسا قصہ پیش آیا بھی تھا کہ ایک خاتون نے دعویٰ کردیا تھا کہ میں نے شوہر اور بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد بھی رضاعت سے منع نہیں کیا گیا، صرف اس بات پر زوردیا گیا کہ اس کو لکھ کر محفوظ کرلیا جائے۔ اگرچہ لکھنے کے بعد بھی فی نفسہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بیس سال بعد یہ لکھا ہوا موجود نہ ہو اور انجانے میں دو رضاعی بہن بھائی کی شادی ہوجائے، لیکن اس وہم کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ کیا ان تمام تر تفصیلات کوسامنے رکھتے ہوئے اور مذکورہ بالا شرائط پر عمل کرتے ہوئے ہیومن ملک بینک کی بجائے اس نظام کو بطور متبادل کے استعمال کرنا شرعاً درست ہے؟
بنوری ٹائون کے دارلافتا کی جانب سے فتویٰ کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ سابقہ استفتاء میں عورتوں کے دودھ جمع کرنے اور باقاعدہ ملک بینک قائم کرنے کے حوالہ سے استفسار کیا گیا تھا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ مذکورہ طرز پر ملک بینک کا قیام ناجائز ہے۔ اس لیے کہ اس میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، اس کی تفصیل سابقہ فتویٰ میں ذکر کی گئی۔ اب سوال ہذا کا حاصل یہ ہے کہ اگر باقاعدہ خواتین کے دودھ کو جمع نہ کیا جائے، بلکہ ضرورت کے متحقق ہونے کے بعد (یعنی: بچے کے قبل از وقت پیدا ہو جانے اور دودھ کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں) اسپتال میں موجود کسی خاتون کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچے کے علاوہ ایک اور بچے کے لیے دودھ فراہم کر دیں، تو کیا یہ صورت اختیار کرنا جائز ہے؟
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سوال میں جو شرائط ذکر کی گئی ہیں اگر ان تمام شرائط کی رعایت رکھی جائے اور تحققِ ضرورت سے پیشتر دودھ جمع نہ کیا جائے، بلکہ کسی بھی بچے کی پیدائش کے بعد اور اس کے لیے دودھ مہیا نہ ہونے کی صورت میں کوئی خاتون اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتی ہے کہ میں ایک بچے کے لیے دودھ مہیا کر دوں گی تو مذکورہ صورت اختیار کرنے کی اجازت ہو گی۔
خصوصی طور پر شرط نمبر4 اور 9 کا خاص خیال رکھا جائے، یعنی ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے۔ پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچہ کے لیے اسٹور کرکے نہ رکھا جائے۔ بچے کو جس خاتون کا دودھ پلایا جائے اس کا ڈیٹا محفوظ رکھا جائے اور دونوں خاندانوں کو اس کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، مذکورہ طریقے پر اگر کام کیا جائے تو امید ہے کہ کسی شرعی ضابطہ کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی۔