فائل فوٹو
فائل فوٹو

عوام کی سستی سواری پر پابندی ظالمانہ فیصلہ

عمیر ظہیر :

کراچی کی گیارہ اہم شاہراہوں پر رکشہ کی آمد و رفت ممنوع کرنے کے فیصلے کو سوشل میڈیا صارفین سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ظالمانہ اقدام قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کمشنر کراچی کی جانب سے جاری ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ شہر کی گیارہ شاہراہوں پر غیر قانونی رکشوں کا داخلہ دو ماہ تک ممنوع ہے۔ اس میں 2+1 اور 4+1 رکشوں کی کیٹگری شامل ہے۔ یہ پابندی 15 اپریل سے 14 جون 2025ء تک نافذ العمل رہے گی۔

اس عرصہ کے دوران رکشوں کیلیے ’’نو گو ایریا‘‘ قرار دی گئی شاہراہوں میں شاہراہ فیصل (آواری ٹاور سے میڈم اپارٹمنٹ تک)۔ آئی آئی چندریگر روڈ (براستہ شاہین کمپلیکس)۔ شیر شاہ سوری روڈ (میٹرک بورڈ آفس سے ناگن چورنگی تک)۔ شہید ملت روڈ (جیل چورنگی سے شہید ملت ایکسپریس وے تک)۔ عبداللہ ہارون روڈ (دو تلوار سے ہاشو سینٹر موبائل مارکیٹ تک)۔ دو تلوار سے عبداللہ شاہ غازیؒ مزار تک۔ اسٹیڈیم روڈ سے ملینیم مال تک۔ سر شاہ سلیمان روڈ (حسن اسکوائر سے کارساز تک)۔ راشد منہاس روڈ (ڈرگ روڈ سے سہراب گوٹھ تک)۔ اور ماڑی پور روڈ (گلبائی سے آئی سی آئی برج تک) شامل ہیں۔

نوٹی فکیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس اور عوام کی جانب سے شکایات موصول ہورہی تھیں کہ خود ساختہ روٹس پر چلنے والے رکشے، ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ چناں چہ ٹریفک کی روانی بہتر بنانے اور حادثات سے بچائو کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔تاہم شہریوں کا موقف یکسر مختلف ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر متذکرہ فیصلے کے خلاف سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے شہریوں کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے لاکھوں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو سستی سواری سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس طرح دو لاکھ سے زائد رکشہ ڈرائیوروں سے ان کا روزگار بھی چھینا جا رہا ہے۔ یعنی لاکھوں گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ جب کہ رکشوں کا کوئی متبادل ذریعہ سفر بھی نہیں دیا جارہا۔

ناراض و مشتعل شہریوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ٹریفک جام اور خونیں حادثات کا سب سے بڑا سبب ڈمپر، ٹرالر اور دیگر ہیوی گاڑیاں ہیں۔ ان پر پہلے رات بارہ بجے سے قبل شہر کی سڑکوں پر نکلنا ممنوع تھا۔ اب یہ اوقات نرم کرکے رات گیارہ بجے کے بعد نقل و حرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن ستم یہ کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔

عائشہ منزل، ناظم آباد پیٹرول پمپ اور ڈیفنس موڑ پر سرِ شام ہی ڈمپر اور ٹریلر دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور ٹریفک پولیس سمیت دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا 14 جون کے بعد شہر میں ٹریفک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ ظاہر ہے وہ مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ تو کیا رکشوں کو یکسر بین کر دیا جائے گا؟ اور ایسا کیا جاتا ہے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور شہری پہلے کی طرح بس، ویگن مافیا کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔