سٹیزن کارڈ ہولڈرز افغان بھی جانے والوں میں شامل ہیں، فائل فوٹو
 سٹیزن کارڈ ہولڈرز افغان بھی جانے والوں میں شامل ہیں، فائل فوٹو

افغان مہاجرین کی واپسی سے سینکڑوں منگنیاں ٹوٹ گئیں

محمد قاسم :

طورخم بارڈر سے واپس جانے والے افغان خاندانوں کو رخصت کرنے کے موقع پر رقت آمیز منظار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جہاں ان کے پاکستانی دوست احباب اور رشتہ دار دلبرداشتہ نظر آ رہے ہیں۔ وہیں افغان مہاجرین کی واپسی سے سینکڑوں منگنیاں بھی ٹوٹ گئیں۔

گزشتہ بیس برس سے پشاور میں مقیم ایک افغان خاندان جو اپنے وطن واپس جارہا تھا، کے سربراہ حاجی رئیس خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان میں ان کی ایک نسل پیدا ہو کر جوان ہوئی۔ جو آج واپس جارہی ہے اور وہ انتہائی دکھی ہیں۔ کیونکہ وہ پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتے تھے۔ تاہم ان کے بقول اب وہ افغانستان جا کر اپنی نوجوان نسل کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ان کی سرپرستی کریں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کا قالین کا بہت بڑا کاروبار تھا اور لاکھوں روپے ماہانہ کمائے۔ ان کے ساتھ پاکستانی شہری بھی اس کاروبار میں شریک رہے اور کئی مقامی ورکر بھی تھے۔ جبکہ ان کے نوجوان بچوں نے میٹرک، انٹر اور یہاں تک کہ بی اے بھی پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہی کیا۔ تاہم اب میٹرک کرنے والوں کا تعلیمی سلسلہ افغانستان میں شروع کروانا پڑے گا جو خاصا مشکل ہو گا۔ کیونکہ پاکستان کے نصاب اور افغانستان کے نصاب میں فرق ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک شہری عبدالصمد نے بتایا کہ ان کے افغان دوست واپس اپنے ملک چلے گئے ہیں۔ ان کا 15 سال پرانا تعلق رہا ہے اور یہاں تک کہ کاروبار بھی ایک ساتھ کیا ہے۔ دوستی اتنی گہری تھی کہ ایک دوسرے کے گھر آزادی کے ساتھ آنا جانا تھا۔ تاہم اب ایک پیارے بھائی کو الوداع کہنے طورخم بارڈر تک آئے ہیں اور انتہائی افسوسناک لمحہ ہے کہ وہ بارڈر کے دوسرے پار جا چکے ہیں اور ہم واپس پشاور جارہے ہیں۔ دوسری جانب پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں افغان باشندوں اور پاکستانیوں کے درمیان جہاں رشتہ داریوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ وہیں بہت سے خاندانوں کے درمیان منگنیاں ٹوٹنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور کے افغان کالونی، ورسک روڈ، ابدرہ، بورڈ، حیات آباد اور کارخانو سمیت مضافاتی علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے خاندان ہیں جنہوں نے یا تو افغان خاندانوں سے رشتے کیے تھے یا رشتے دیئے تھے۔ منگنی بڑی دھوم دھام کے ساتھ کی گئی تھی۔ لیکن اب چونکہ حکومت پاکستان کی جانب سے تمام غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو افغانوں کو نکالا جارہا ہے۔ اسی لئے رجسٹریشن کرانے والے خاندانوں نے واپسی شروع کر دی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی خاندانوں نے اپنی بچیوں کے رشتے جن افغان خاندانوں میں کیے تھے۔ اب وہ منگنی توڑ رہے ہیں۔ جبکہ افغان خاندانوں کی جانب سے بھی رشتے ختم کرنے کی اطلاعات ہیں۔ کیونکہ صرف منگنی کی صورت میں افغان خواتین پاکستان میں نہیں رہ سکتیں۔ اسی لئے پشاور سمیت شہر کے مضافاتی علاقوں سے جانے والے افغانوں نے جہاں اپنے گھر کا سامان سمیٹا ہے۔ وہیں رشتہ داریاں بھی ختم کردی ہیں۔ ذرائع کے بقول پشاور کے علاوہ سوات، نوشہرہ، چار سدہ، مردان، صوابی، کرک، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر اضلاع سے بھی بڑے پیمانے پر پاکستان اور افغانستان کے خاندانوں کے درمیان کیے گئے رشتے ختم ہوئے ہیں اور لین دین کی بھی واپسی کی اطلاعات ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چونکہ شادی اور نکاح سے پہلے منگنی کا رواج زیادہ ہے۔ اس لئے پاکستانی خاندانوں کی جانب سے منگنی نکاح سے پہلے رکھی گئی۔ جبکہ افغانستان میں منگنی کا رواج اتنا زیادہ نہیں اور وہاں نکاح کے فوری بعد رخصتی کی جاتی ہے، جو افغان اور پشتون رواج بھی ہے۔ تاہم افغان خاندان چونکہ پاکستان میں مقیم تھے۔ اس لئے ان کو پاکستانی رواج کے مطابق منگنی کرنی پڑی۔ لیکن اب صورتحال چونکہ تبدیل ہو چکی ہے اور وطن واپس جانا ضروری ہو گیا ہے۔ اس لئے سینکڑوں خاندانوں نے منگنیاں ختم کر دی ہیں۔

پشاور سے جانے والے ایک افغان خاندان کے نوجوان فرد احمد علی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کے آبا و اجداد غزنی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم افغانستان میں حالات خراب ہونے کے باعث انہوں نے پاکستان ہجرت کی اور پشاور میں فروٹ کا بزنس کیا۔ اس دوران ان کے خاندان کی پاکستانی خاندانوں کے ساتھ دوستی بھی ہوئی اور اسی دوستی پر انہوں نے اس کی منگنی یہاں طے کر دی۔ لیکن اب چونکہ پاکستان سے جانا پڑ رہا ہے۔ اس لئے منگنی یہ کہہ کر توڑ دی گئی کہ افغانستان میں حالات ٹھیک نہیں، وہاں سہولیات کا فقدان ہے اور دیگر مسائل بھی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب بھی موقع ملا وہ ویزہ بنا کر پاکستان اور خاص کر پشاور آتا رہے گا۔ کیونکہ پاکستان اور خاص کر پشاور اس کا دوسرا گھر ہے۔ یہاں پر تعلیم حاصل کی اور کاروبار کیا۔ یہاں سے زندگی کی بہت سی اچھی یادیں وابستہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔