زمینی و سمندری راستوں سے اسملنگ تاحال جاری ہے، فائل فوٹو
 زمینی و سمندری راستوں سے اسملنگ تاحال جاری ہے، فائل فوٹو

انسانی اسمگلنگ کا بڑا نیٹ ورک پکڑا گیا

عمران خان :

انسانی اسمگلنگ کا ایک بڑا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔ جو پاکستانی شہریوں کو ایران و عراق اسمگل کر رہا تھا۔ تحقیقات کے بعد ایف آئی اے نے گرفتار ملزمان کے بیرون ملک موجود ساتھیوں کو انٹرپول کے ذریعے پکڑنے کیلئے میوچل لیگل اسسٹنٹس (ایم ایل ایز) پر کام شروع کردیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پہلے سے گرفتار ملزمان کی نشاندہی پر ایف آئی اے نے ایران اور عراق میں پاکستانی شہریوں کو غیر قانونی طور پر بھجوانے والے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جن سے معلوم ہوا تھا کہ کئی ملزمان ابھی بھی کچھ قافلے لے کر ملک کے مختلف علاقوں کے ٹھکانوں پر موجود ہیں۔ جن کو سرحد پار کرانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

ایسی ہی ایک اطلاع پر ایف آئی اے نے جنگھڑا موٹر وے انٹر چینج بہاولپور پر کارروائی کرکے شہریوں کی ایران اور عراق اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی۔ اس منظم گینگ کے 2 کارندوں کو گرفتار کر کے 48 افراد بشمول خواتین اور بچوں کو بازیاب کروایا گیا۔ مزید معلوم ہوا کہ ملزمان نے 48 شہریوں کو بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسا دے کر 83 لاکھ 93 ہزار روپے سے زائد کی رقم وصول کی۔ ملزمان سے 17 پاسپورٹ، موبائل فونز اور دیگر اہم دستاویز بھی برآمد کی گئیں۔ ملزمان کیخلاف مقدمات درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

پہلے سے حراست میں لئے جانے والے کارندوں سے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ انسانی اسمگلرز اپنے سب ایجنٹوں کے ذریعے ملک سے 18 راستوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کی وارداتیں کر رہے ہیں۔ جس کیلئے تین مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ کراچی انٹر نیشنل ایئر پورٹ، لاہور ایئر پورٹ، اسلام آباد ایئرپورٹ کے علاوہ بلوچستان سے ایران اور عمان جانے والے 12 زمینی اور سمندری راستے انسانی اسمگلنگ کیلئے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جن میں تافتان، چمن، چاغی، گلستان، پنجگور، تربت اور مند بلو کے علاقے شامل ہیں۔ انسانی اسمگلرز نے گزرتے وقت کے ساتھ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانی شہریوں کو راستے میں قتل کرنا اور اغوا کرکے تاوان وصولی جیسی وارداتیں بھی شروع کردی ہیں۔

ذرائع کے بقول پانچ یا چھ ہزاز ڈالر فی کس کے حساب سے پہلے لوگوں کو بلوچستان لے جایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ترکی، ایران اور یونان، جو یورپی یونین کا رکن ملک ہے۔ لیکن اتنی بڑی رقم کے باوجود اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ بھی جائے گا۔ اس طرح بے شمار افراد جعلسازوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں اور اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانی اسمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالر کمائے تھے۔ پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ کا سرکاری ڈیٹا ایف آئی اے رکھتا ہے۔

اس سرکاری ادارے کی ایک ریڈ بک کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں 141 گینگ موجود تھے۔ جن میں سے اکثریت گجرات اور گوجرانوالا سے تعلق رکھتی تھی۔ تب ایسے مجرموں کے دیگر منظم گروہوں میں سے بہت سے سیالکوٹ، راولپنڈی، منڈی بہائو الدین اور آزاد کشمیر میں فعال تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجرموں کے ان 141 گروہوں میں قریب 7800 افراد شامل ہیں۔ جنہوں نے 8500 پاکستانیوں کو پچھلے سال مشرق وسطیٰ، یورپ اور افریقی ممالک میں اسمگل کیا۔ ایف آئی اے کے مطابق پچھلے پانچ برس میں پاکستان کی ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں سے 61 ہزار سے زائد ایسے افراد کو پکڑا گیا۔ جنہیں بیرون ملک اسمگل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے عام راستوں کے طور پر چمن، گلستان، تافتان، نوشکی، چاغی، پنچگور اور تربت جیسے علاقوں کے نام لیے جاتے ہیں۔

ذرائع کے بقول انسانی اسمگلروں نے غیر قانونی طور پر خلیجی اور یورپی ممالک جانے کے خواہش مند پاکستانی تارکین وطن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے نئے طریقے استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ان میں سے بعض طریقے جان لیوا ہیں۔ جن کی وجہ سے غیر قانونی تارکین وطن میں شامل درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایف آئی اے حکام کی جانب سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائیوں اور حکمت عملی اپنائے جانے کے دعووں کے باجود ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی اسمگلنگ میں کمی کے بعد سمندری راستے سے انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے زیادہ رقم کمانے کیلئے کچھ نئی وارداتیں شروع کردی ہیں۔

ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ انسانی اسمگلروں کے ایجنٹوں نے خیبرپختون، پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے شہریوں کو یورپی اور خلیجی ممالک بھجوانے کیلئے 10 ہزار سے 15 ہزار ڈالرز وصول کرکے انہیں بلوچستان کے ساحلوں پر لاوارث چھوڑ دیا۔ جبکہ کئی تارکین وطن کو عمان کے ساحلوں کے قریب گولیوں سے بھون دیا گیا، تاکہ انہیں یورپ منتقل کرنے کی زحمت سے بچا جا سکے۔ ان وارداتوں میں عمانی بارڈر سیکورٹی گارڈز کے کچھ حکام بھی انسانی اسمگلرز سے ملے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسقط کی جیل میں سزا بھگت کر آنے والے تارکین وطن کی زبانی لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے۔ سینکڑوں تارکین وطن کو ترکی کے ساحلوں سے اغوا کرکے پاکستان میں موجود ان کے اہلخانہ سے تاوان وصول کیا جانے لگا۔ پاکستان کی افغانستان اور ایران کے ساتھ انتہائی طویل سرحدیں اسمگلروں کیلئے بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

موجودہ حالات میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے راستے غیر قانونی سرحدی راہداریاں اور سمندری راستے ہیں۔ پاکستانی شہری بیرون ملک جانے کی خواہش زیادہ تر اس لیے رکھتے ہیں، کہ وہ اصل حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔ اپنی سادگی اور لاعلمی کے باعث ایسے اکثر پاکستانی جرائم پیشہ گروہوں اور ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زمینی حقائق سے عدم واقفیت کے باعث وہ اسمگلروں کی طرف سے دکھائے جانے والے سبز باغوں پر یقین کر لیتے ہیں اور اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے دوران پیش آنے والے ممکنہ جان لیوا خطرات کو قبول کرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔

انسانی اسمگلرز نے پاک ایران بارڈر پر سیکورٹی اداروں کی جانب سے لگائی گئی خاردار آہنی باڑھ کو جگہ جگہ سے کاٹنا شروع کردیا ہے۔ جبکہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے جانے والے شہریوں کیلئے انسانی اسمگلرز نے ترکی کے علاقے سیف میں خفیہ ٹھکانے قائم کر لئے ہیں۔ جہاں انہیں یرغمال بناکر تشدد کرکے تاوان وصول کیا جا رہا ہے۔ انسانی اسمگلروں کے کارندے سرحد کے دونوں اطراف موجود ہیں۔ جو پنجاب، خیبر پختون اور سندھ سے بڑی تعداد میں یورپی ممالک اور ترکی جانے کے خواہشمندوں کو گھیر کر قافلوں کی صورت میں پاک ایران کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں جمع کر رہے ہیں۔ جہاں سے کسی ایک مقام پر بڑے بڑے کٹرز کے ذریعے آہنی باڑھ کو کاٹا جاتا ہے اور قافلوں میں موجود افراد کو فوری پاکستان سے ایران کے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔

یہ عمل اتنی سفاکی اور بیدردی کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ کئی افراد اس کٹی ہوئی آہنی باڑھ سے گزرتے ہوئے خاردار تاریں لگنے سے شدید زخمی ہوجاتے ہیں۔ تاہم گہرے زخم لگنے اور خون نکلنے کے باجود انسانی اسمگلرز کے کارندے ان افراد کو رکنے نہیں دیتے اور مار مار کر آگے چلاتے رہتے ہیں تاکہ پکڑے نہ جائیں۔ ایسی صورتحال میں نکالے جانے والے افراد کو کسی قسم کی مرہم پٹی یا ادویات بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔ کئی افراد جب ترکی تک پہنچتے ہیں تو ان کے زخم ناسور بن چکے ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔