فائل فوٹو
فائل فوٹو

انڈین ججز سے کیا بات ہوئی ، نہیں بتاوں گا، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رپورٹرز سے ملاقات میں چین کے عدالتی نظام، زیرالتوا مقدمات، ٹیکنالوجی کے استعمال اور بین الاقوامی عدالتی روابط پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ حالیہ دورہ چین کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ چائنہ کی سپریم کورٹ میں 367 ججز تعینات ہیں اور حیران کن طور پر وہاں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں۔ جب چینی ججز کو ہمارے زیرالتوا مقدمات کی تعداد بتائی گئی تو وہ حیران رہ گئے، انہوں نے پوچھا کہ اتنے کیسز آپ کیسے نمٹائیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ اسی لیے تو ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ناگزیر ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ٹیکنالوجی کوئی ایسی گولی نہیں جو کھائی جائے اور سب کچھ خود بخود بہتر ہو جائے۔ ان کے مطابق جب تک مکمل ڈیٹا موجود نہ ہو مصنوعی ذہانت (AI) کا مؤثر استعمال ممکن نہیں۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بتایا کہ وہ پانچ رکنی وفد کے ہمراہ چین کے دورے پر گئے جہاں ایرانی چیف جسٹس سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی عدالتی نظام میں بھی پاکستان کی طرح چار فورمز کام کر رہے ہیں۔ دورہ چین کے دوران بھارتی عدلیہ کے ججز سے بھی بات چیت ہوئی تاہم موجودہ حالات کے تناظر میں ان باتوں کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

چیف جسٹس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پاکستان کی پانچوں ہائی کورٹس ٹیکنالوجی کے حوالے سے سپریم کورٹ سے بہتر سطح پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عدالتی نظام میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال اور مثبت تجربات سے سیکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات ایسے ہیں کہ عدلیہ سے متعلق اچھی باتیں عوام تک پہنچنی چاہئیں تاکہ اعتماد بحال ہو اور اصلاحات کا عمل تیز ہو سکے۔