نمائندہ امت :
حکومت سندھ کی جانب سے تعمیر کردہ شاہراہ بھٹو (ملیر ایکسپریس وے) سے عوام کو ایک نئی سفری سہولت میسر ہوئی ہے۔ تاہم ناقص منصوبہ بندی کے باعث مذکورہ پروجیکٹ کسی بھی وقت کراچی کیلئے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ تین برس قبل مکمل ہونے والے مذکورہ پروجیکٹ کے تحت ابھی تک صرف 9 کلومیٹر سڑک تعمیر ہوسکی ہے۔ لیاری ایکسپریس وے کے مقابلے میں کم فاصلہ ہونے کے باوجود مذکورہ شاہراہ پر سفر کرنے والی گاڑیوں سے لیاری ایکسپریس وے کے مقابلے میں تقریباً 43 فیصد زیادہ ٹول ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ منصوبہ بروقت مکمل نہ ہونے کے باعث اس کی لاگت میں بھی سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک برساتی ندی نالوں کی بات ہے تو ان کا کسٹوڈین قانونی طور پر صوبائی محکمہ آبپاشی ہوتا ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے متعلق محکمہ آبپاشی کے حکام بھی خاموش ہیں۔
کراچی شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے دبائو سے نمٹنے کیلئے حکومت سندھ نے ملیر ندی کے دائیں کنارے ملیر ایکسپریس وے کے نام سے منصوبہ شروع کیا ہوا ہے۔ جسے حکومت سندھ نے اب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے منسوب شاہراہ بھٹو کا نام دیا ہے۔ کراچی حیدرآباد موٹر وے کے کاٹھور کے مقام سے 39 کلومیٹر پر محیط اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 27 ارب روپے لگایا گیا تھا۔ یہ منصوبہ 2020ء میں شروع ہوکر دو برس کے اندر مکمل ہونا تھا۔ لیکن اس منصوبے پرکام کا آغاز دو تین برس تاخیر سے ہوا۔ اور حکومت سندھ نے جو منصوبہ بندی کی تھی، اس کے مطابق شاہراہ بھٹو کا پہلا فیز کورنگی کراسنگ سے قائدآباد پل تک تعمیر ہونا تھا۔ جس کیلئے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دسمبر 2024ء تک پہلا فیز مکمل کیا جائے گا۔ لیکن ابھی تک قائدآباد تک سڑک کی تعمیر مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ چند ماہ قبل حکومت سندھ نے شاہراہ فیصل سے کورنگی کراسنگ تک مذکورہ شاہراہ کو ٹریفک کیلئے کھول دیا ہے۔
اس طرح 27 ارب روپے لاگت والے مذکورہ پروجیکٹ کی لاگت میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کر کے اب اس کی ہونے والی تعمیر کا تخمینہ 54 ارب سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لاگت بڑھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مذکورہ شاہراہ میں کچھ ایڈیشنل کام بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جو یقینا عوام کی بہتری کیلئے ہیں۔ لیکن لاگت بڑھنے کا ایک سبب منصوبہ کا بر وقت مکمل نہ ہونا ہے۔ اس منصوبے کے متعلق عوام کو یہ شکایت بھی ہے کہ صرف نو کلومیٹر سڑک کیلئے فی گاڑی کا ٹول ٹیکس 100 روپے وصول کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں لیاری ایکسپریس وے کا فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود لیاری ایکسپریس وے پر سفر کرنے والی گاڑیوں سے 70 روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔
سرکاری و نجی شراکت (پی پی پی موڈ) کے تحت تعمیر ہونے والا مذکورہ منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں کراچی کے عوام کو ٹریفک کی بڑی سہولت مل جائے گی۔ تاہم اس پروجیکٹ کی تعمیر میں فنی طور پر جو غفلت برتی گئی ہے۔ اس سے لیاری ندی کے بند ٹوٹنے کی صورت میں وہ کراچی کے عوام کیلئے کسی بھی وقت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ جس سے کراچی شہر کے کئی علاقے ڈوب سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں تعمیرات اور آبپاشی کے ماہرین کا موقف ہے کہ برساتی پانی کی گزر گاہوں، ندی نالوں پر جب بھی اس نوعیت کا پروجیکٹ شروع کیا جاتا ہے تو اس کیلئے یہ بات مینڈیٹری ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس منصوبے کے متعلق ہائیڈروجیکل اینڈ فزیکل ماڈل اسٹڈی کرائی جائے۔
مذکورہ ماڈل اسٹڈی کے تحت اس منصوبے کا چھوٹا سا ایک ماڈل بنایا جاتا ہے۔ جس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ندی نالے کی فزیکل پوزیشن کیا ہے۔ اس میں پانی کے بہائو کی کتنی گنجائش ہے۔ پھر اس ماڈل میں اسی مقدار میں پانی کا اخراج کیا جاتا ہے۔ جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ پانی کہاں کہاں بندوں سے ٹکرارہا ہے اور اس میں کس کس جگہ رکاوٹ آرہی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے پانی کے بہائو میں جہاں رکاوٹ آرہی ہے، اس کو دور کیا جائے اور اسی چیز کو مد نظر رکھ کر پروجیکٹ کا پورا ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شاہراہ بھٹو (ملیر ایکسپریس وے) کی تعمیر سے قبل اس پروجیکٹ کے متعلق ہائیڈروجیکل اینڈ فزیکل اسٹڈی کرانے کے کام کو نظر انداز کیا گیا۔ جس کے باعث اس بات کا خدشہ ہر وقت موجود رہے گا کہ اگر کسی سال معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں تو لیاری ندی کا بند کہیں سے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ جو بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 1972ء میں کراچی سمیت کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں شدید بارشیں ہوئی تھیں۔ جس کے باعث ملیر ندی بپھر گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں کورنگی وغیرہ کا تقریباً بیشتر علاقہ زیر آب آگیا تھا۔ مذکورہ ماہرین کا کہنا تھا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے کئی مقامات پر ملیر ندی کی چوڑائی کو کم کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی خطرناک ہے اور اس سے بھی بڑی خطرناک بات یہ ہے کہ سڑک کی تعمیر کے باعث ملیر ندی کے دائیں کنارے کو مضبوط کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے بائیں کنارے کی مرمت تک نہیں کی گئی اور وہ اپنی پرانی حالت میں موجود ہے۔
اس کے متعلق مذکورہ پروجیکٹ سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ میں ملیر ندی کے بائیں کنارے کے بند کو مضبوط بنانا شامل ہی نہیں تھا۔ اس لئے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ لیاری ندی کی طرح ملیر ندی بھی اب کراچی کے سیوریج سسٹم کا بڑا حصہ ہے۔ لیکن اصل میں یہ ندیاں پانی کی قدرتی گزرگاہیں ہیں۔ جہاں تک ملیر ندی کی بات ہے تو صرف کراچی کے برسات کا پانی نہیں، بلکہ کھیرتھر کی پہاڑیوں میں ہونے والی بارشوں کی قدرتی گزر گاہ یہ ندی رہی ہے۔ اور دیکھا گیا ہے کہ تیز بارشوں کے باعث متعدد بار ملیر میں واقع تھدو ڈیم بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اس لئے کراچی کو محفوظ بنانے کیلئے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے باعث پانی کی قدرتی گزر گاہوں میں آنے والی رکاوٹیں دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
بعض ماہرین اس بات پر بھی متعجب ہیں کہ مذکورہ شاہراہ کی تعمیر کے متعلق محکمہ آبپاشی کے حکام حرکت میں کیوں نہیں آئے۔ کیونکہ قانونی طور پر نہ صرف دریا اور نہریں بلکہ برساتی نالے و ندیوں کا کسٹوڈین بھی محکمہ آبپاشی ہوتا ہے۔ انہوں نے فزیکل اسٹڈی کے بغیر تعمیر ہونے والے مذکورہ پروجیکٹ کے متعلق آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ یہاں تک کہ مذکورہ پروجیکٹ شروع ہونے سے قبل محکمہ آبپاشی سے این او سی لینے کا بھی کسی کو خیال نہیں آیا۔ وہ شاید اس لئے ہے کہ محکمہ آبپاشی بھی خود حکومت سندھ کا محکمہ ہے۔ انہوں نے حکومتی دلچسپی کے باعث شاید اس معاملے پر خاموش رہنا مناسب سمجھا۔
تاہم مذکورہ پروجیکٹ سے وابستہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے سے قبل فزیکل اسٹڈی نہیں کرائی گئی۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کمپیوٹرائزڈ اسٹڈی کراکے محکمہ آبپاشی کے حکام کو ارسال کر دی تھی۔ جس پر محکمہ آبپاشی نے کوئی بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ تاہم دیگر فنی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی بڑی ترقی کرچکی ہے۔ لیکن اس نوعیت کے بڑے پروجیکٹ کی ماڈل اسٹڈی ضروری ہوتی ہے۔ جس کیلئے کمپیوٹر ٹیکنالوجی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتی۔