بیشتر نے خوف کے مارے اپنی فتنہ انگیز پوسٹیں اور ٹک ٹاک ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں ، فائل فوٹو
بیشتر نے خوف کے مارے اپنی فتنہ انگیز پوسٹیں اور ٹک ٹاک ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں ، فائل فوٹو

سوشل میڈیا پر مودی کی ہمنوا کالی بھیڑیں کھال بچانے لگیں

عمران خان:
پاک بھارت کشیدہ صورتحال میں مودی کا بیانیہ آگے بڑھانے والے پاکستان اور بیرون ملک بیٹھے پی ٹی آئی ٹرولز نے ریاستی اداروں کے حرکت میں آتے ہی اپنی کھال بچانی شروع کردی ہے۔ نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (سی سی آئی اے) کے تحت ایسے ریاست دشمن عناصر کی مانیٹرنگ پر مامور ٹیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور مقتدرہ اداروں کی پالیسیوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے والے متعدد افراد نے آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد عوام کا پاک افواج سے والہانہ اظہارِ عقیدت دیکھتے ہوئے مثبت پوسٹیں کرنی شروع کردی ہیں۔ جبکہ بہت سے پی ٹی آئی ٹرولز نے گزشتہ دس روز میں کی جانے والے اپنی فتنہ انگیز پوسٹوں کو ڈیلیٹ کرنا بھی شروع کردیا ہے۔

’’امت‘‘ کو موصول اطلاعات کے مطابق تین روز قبل نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے پاک بھارت جنگی صورتحال کے دوران 500 سے زائد ایسے پاکستانی افراد کے سوشل میڈیا اکائونٹس کو اپنی تحقیقات کے ریڈار پر لے لیا تھا، جو اس دوران بھی حکومت اور مقتدر اداروں پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف تھے۔
جس کے بعد ان کی پوسٹوں کا ڈیٹا جمع کرکے ان کے خلاف باقاعدہ مقدمات کی منظوری بھی لے لی گئی۔

ذرائع کے بقول اس نازک وقت میں اپنے وطن پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے ریاست مخالف بیانیہ اپنانے کا مقصد عالمی سطح پر بھارتی پروپیگنڈے کو تقویت دینا تھا۔ ذرائع کے بقول ان اکائونٹس میں سے بیشتر کا تعلق بیرون ملک فرار نام نہاد صحافیوں اور یوٹیوبرز کا ہے جو بانی پی ٹی آئی کو دیوتا کا درجہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے متعدد کارکنوں کے اکائونٹس بھی ان میں شامل ہیں۔ انکوائریاں اور کیس بنانے کے لئے جن اکائونٹس کو مانیٹرنگ میں رکھا گیا ہے، ان میں بہت سے اکائونٹس بلیو ٹک کے حامل ہیں۔ یعنی ویری فائیڈ ہیں اور ان کے ملک اور بیرونِ ملک ہزاروں، لاکھوں فالورز ہیں۔

اس ضمن میں اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران ریاست مخالف بیانیے کے پھیلائو کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 500 سے زائد سوشل میڈیا اکائونٹس کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ یہ کارروائی اْس منظم اور مربوط مہم کے خلاف ہے جس کا مقصد قومی سلامتی کو نقصان پہنچانا اور عوام میں انتشار پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ ایجنسی کے مطابق یہ مہم خاص طور پر اْس وقت شدت اختیار کر گئی جب ملک میں قومی سلامتی سے متعلق حساس صورت حال پیدا ہوئی۔ ایجنسی نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ان اکائونٹس کی ڈیجیٹل سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اور شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق سائبر کرائم ونگ کی خصوصی ٹیمیں ان اکائونٹس کی پوسٹنگ پیٹرن، ڈیجیٹل فٹ پرنٹس اور دیگر مشتبہ اکائونٹس سے روابط کی چھان بین کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں نادرا کے تعاون سے چہرہ شناسی (Recognition Facial) ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے تاکہ ان اکائونٹس کے فرضی ناموں پیچھے چھپے اصل مکروہ کرداروں کی شناخت ممکن ہو سکے۔ این سی سی آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی شواہد مکمل ہوں گے اور شناخت کی تصدیق ہو جائے گی، ان افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا جائے گا۔ ایجنسی کے مطابق یہ کارروائی ملک کے موجودہ سائبر کرائمز قوانین کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔

ذرائع کے بقول اس بات کا مصمم ارادہ کرلیا گیا ہے کہ ریاستی اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی مہم یا عوامی رائے کو گمراہ کرنے کی کوشش کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ قومی سالمیت کے دفاع میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی اور ملوث عناصر کے خلاف فوری اور سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس حوالے سے مذکورہ افراد کو براہ راست یا قریبی دوستوں اور عزیزوں کے ذریعے پیغامات بھی دے دیئے گئے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔ اگر یہ کیس بن گئے اور مقدمات درج ہوگئے تو اس معاملے کو ملکی سلامتی کی پالیسی کے تحت سختی نمٹا جائے گا۔

اس حوالے سے ایجنسی کے ڈیجیٹل سیکورٹی اور اطلاعاتی جنگ کے ماہرین کے مطابق، یہ اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان میں سائبر اسپیس کو اب قومی سلامتی سے جْڑا ہوا ایک حساس محاذ تصور کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں ریاستی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنا ضروری ہے، وہیں شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی حدود کا بھی خیال رکھنا اہم ہے۔ یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا اور افواہوں، جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا مہمات کے ذریعے سوشل میڈیا پر بے یقینی کی فضا پیدا کی جاتی رہی۔

واضح رہے کہ ایک ماہ قبل نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی، ایف آئی اے سے علیحدہ ہو کر باقاعدہ وجود میں آگئی تھی۔ ملک بھر میں پیکا ایکٹ کے تحت سائبر کرائمز کے انسداد کے ذمے دار اس نئے ادارے کے لئے وقار الدین سید پہلے ڈی جی کے طور پر چارج سنبھال چکے ہیں۔ جس کے بعدایف آئی اے اور پولیس سمیت ملک بھر سے تمام سائبر کیس ایجنسی کو منتقل ہوگئے ہیں۔ ملک میں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز، انتہا پسندانہ، گستاخانہ، مذہبی و سیاسی منافرت پر مشتمل رویوں کی روک تھام کے لئے اس نئی ایجنسی کا نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا ) کے ساتھ اہم اشراک ہوگا۔ نیکٹا کی رپورٹوں کی روشنی میں ریاست مخالف پراپیگنڈا میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیاں این سی سی آئی اے سے کروائی جارہی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کو سائبر کرائمز کے مقدمات میں مطلوب بیرون ملک موجود عناصر تک رسائی کے لئے بین الاقوامی اداروں سے خط و کتابت کا اختیار رکھنے والے اس ادارے کے پہلے ڈی جی وقار الدین کے سامنے موجود چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایسے عناصر کو مضبوط کیس بنا کر انٹرپول کے ذریعے وطن وا پس لائیں۔ اس کے لئے پیکا قوانین کی روشنی میں مربوط ایس او پیز بنائی جا رہی ہیں۔ جبکہ خصوصی عدالتوں سے وارنٹ لے کر انٹرپول کے ساتھ اشتراک کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ ذرائع کے بقول یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ جلد ہی عالمی سطح پر امریکہ اور یورپی ممالک سے ایسے معاہدے کئے جائیں کہ ان کی ڈیجیٹل کمپنیاں پاکستانی حکومت اور سرکاری اداروں کو احکامات کو فوری ماننے کے لئے تیار ہوجائیں۔