فیصل آباد۔۔ یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد (یو اے ایف )میں ایک اعلیٰ سطح کا دو روزہ قومی مشاورتی اجلاس بعنوان ”ترجیحات اور راستے: پاکستان کے لیے قومی فوڈ سیکیورٹی اور نیوٹریشن کے تحقیقاتی ایجنڈے کی تشکیل”آج اختتام پذیر ہوا، جس میں ممتاز ماہرین تعلیم، سرکاری نمائندگان، اور ترقیاتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے مساوات، پائیداری، اور شواہد پر مبنی تحقیقاتی ایجنڈے پر مشترکہ اتفاق رائے کا اظہار کیا۔
دو روزہ یہ اجلاس گلوبل الائنس فار امپرووڈ نیوٹریشن (GAIN)، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NIFSAT)، اور پاک کوریا نیوٹریشن سینٹر (PKNC) کے باہمی اشتراک سے منعقد ہوا، جس میں پاکستان کے خوراک کے مستقبل پر بھرپور اور بامعنی گفتگو ہوئی۔
پروفیسر ڈاکٹر عمران پاشا، ڈائریکٹر جنرل NIFSAT نے پرجوش اندا ز میں مشاورتی اجلاس کاآغاز کیا اور شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے خوراک کے نظام کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں تعلیمی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے GAIN کی کنٹری ڈائریکٹر محترمہ فرح ناز نے کہا،”یہ مکالمہ کسی ایک وقتی کوشش کے بارے میں نہیں، بلکہ غذائی عدم مساوات، غذائی قلت اور خوراک کی حفاظت کے لیے مشترکہ ردعمل کی تشکیل کیلئے ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم پائلٹ پراجیکٹس سے نکل کر پالیسی سطح پر جائیں۔”
گلوبل الائنس فار امپرووڈ نیوٹریشن کے ہیڈ آف پالیسی اینڈ ایڈووکیسی، جناب فیض رسول نے اپنے خطاب میں کہا،”ہم ابتدا نہیں کر رہے، ہم اپنی موجودہ صلاحیت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اب ضروری ہے کہ ان صلاحیتوں کو ایک مربوط اور قابل عمل تحقیقاتی ایجنڈے میں ڈھالا جائے۔ یہ صرف تکنیکی دستاویز نہیں بلکہ ہر پاکستانی شہری کے ساتھ ایک معاشرتی معاہدہ ہے جو محفوظ، متوازن، اور سستی خوراک کا حق رکھتا ہے”۔
اجلاس میں چھ کلیدی موضوعات پر تفصیلی مکالمہ ہوا، جن میں :غیر متعدی بیماریاں، غذائی ماحول اور خوراک کی اقسا م ، خوراک کی حفاظت ، کٹائی کے بعد کے نقصانات ، موسمیاتی لچک ، اور طرز حکمرانی شامل تھے۔ ہر گروپ نے قابل عمل ترجیحات پیش کیں، جن میں غیر صحت مند خوراک پر ٹیکس، غذائیت کے معاون نظام کے لیے مصنوعی ذہانت (آرٹیفشیل انٹیلی جنس )ٹولز کا استعمال، خوراک کی حفاظت کے قوانین کو مضبوط بنانا، اور موسمیاتی لچک دار زراعت کو فروغ دینا شامل تھا۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور معروف گندم بریڈر پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے خوراک کے نظام کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:”ہم نے جنگ عظیم دوم کے بعد قحط پر قابو پایاجس کی قیمت ہمیں خوراک کے معیار کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ آج ہمارے خوراک کے نظام کے چھپے نقصانات کی عالمی لاگت 13 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ خوراک کے نظام کی تبدیلی اب آپشن نہیں، بلکہ ایک نا گزیر ضرورت بن چکی ہے۔ اور یہ ایجنڈا صرف زراعت کا نہیں بلکہ پوری حکومت اور معاشرے کا ہے۔
پاک کوریا نیوٹریشن سینٹر کے پالیسی لیڈ ڈاکٹر اللہ رکھا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور نظام میں ہم آہنگی اور کثیر شعبہ جاتی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا۔اختتامی اجلاس میں تحقیقاتی ترجیحات پر عمل درآمد، ادارہ جاتی ہم آہنگی، اور ایک عملی ڈھانچے کی تشکیل پر غور کیا گیا۔ شرکا نے اس ایجنڈے کو نچلی سطح سے لے کر پالیسی سطح تک عملی نتائج میں ڈھالنے کے لیے مشترکہ طور پر عزم کا اظہار کیا۔
پاکستان میں خوراک کے نظام کی تبدیلی کی جانب یہ مشاورتی عمل ایک اہم سنگ میل ہے، جو ایک ایسے مستقبل کی تشکیل کا راستہ ہموار کرتا ہے جس میں غذائیت، پائیداری اور مساوات قومی ترقی کے مرکز میں ہوں۔اگر آپ اسے ادارے کے لیے باضابطہ ریلیز کے طور پر فارمیٹ کرنا چاہتے ہیں (مثلاًلوگو، فوٹر، کانٹیکٹ ڈیٹیلز شامل کرنا) میں وہ بھی تیار کر سکتا ہوں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos