ٹرمپ اسرائیلی بارودی سرنگوں کے راستے پر؟

سجاد عباسی

ایک طرف امریکہ ایران کو اپنی تنصیبات پر حملے کے لیے باقاعدہ اکسا رہا ہے تو دوسری جانب ایران کی تیاریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے اس پر واویلا بھی کیا جا رہا ہے، جیسے امریکہ امن کی فاختائیں اڑا رہا ہو اور ایران جارحیت پر اتر آیا ہو۔۔ آپ ٹرمپ سے لے کر اس کے ایک نیم خواندہ سینیٹر ٹیڈ کروز تک کے بیانات کو دیکھ لیں، ظاہر یہی ہوتا ہے کہ امریکہ عملی طور پر جنگ میں شریک ہے اور ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل سے بھی زیادہ بے چین ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ایران نے امریکی بحری اڈوں پر حملے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ابنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھائی جائیں گی۔ حوثی بھی امریکی مفادات کو نشانہ بنائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
جب امریکی صدر خود یہ دھمکی دے کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی کا دارالحکومت تہران فوری طور پر خالی کیا جائے تو اس کے عزائم جاننے کے لیے کسی سفارتی مہارت کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ جنگ بندی کی بات کرنے والے فرانسیسی صدر کو جھاڑ پلا دے کہ میں تو اس سے "کچھ بڑا” کرنے جا رہا ہوں۔ جب ایک آزاد ملک کی پوری عسکری اور جوہری قیادت کو ختم کرنے کے بعد بھی آپ کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہو، اور آپ یہ کہیں کہ ہمیں معلوم ہے آیت اللہ خامنہ ای کدھر ہیں۔۔(اس کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ پر بھی ایران میں ریجیم چینج کا بھوت پوری طرح سوار ہو چکا ہے جو کہ خامنہ ای کی موجودگی میں ممکن دکھائی نہیں دیتا) جب آپ یہ اعلان کر رہے ہوں کہ اسرائیل ہمارا بنایا ہوا اسلحہ بہت مہارت سے چلا رہا ہے۔اور یہ کہ ایران کو ہر صورت اپنا جوہری پروگرام ختم کرنا ہوگا بصورت دیگر ہم اسے تباہ و برباد کر دیں گے۔ جب مشرق وسطیٰ میں آپ کے بحری بیڑے حرکت میں آ چکے ہوں، جنگی جہازوں کی ری فیولنگ کا انتظام مکمل ہو،تو ایسے میں جارحیت کا شکار ملک آپ کے حملوں سے بچاؤ کے لیے تیاری بھی نہ کرے؟
ایسا لگ رہا ہے کہ نئے محاذ کھولنے اوربظاہر جنگوں سے بیزاری ظاہر کرنے والا ٹرمپ اب اسرائیل کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں پر پاؤں رکھنے کی سنگین غلطی کرنے پر تل گیا ہے، خدانخواستہ جس کا نتیجہ عالمی سطح پر تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں چین بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرے گا اور روس بھی کہیں نہ کہیں حساب برابر کرنے کی خواہش دل میں چھپائے بیٹھا ہوگا بھلے اسرائیل کے حوالے سے اس کی پالیسی کچھ بھی ہو۔