سجاد عباسی
پروفیسر اشفاق کلیم عباسی اپنی ذات میں انجمن ہیں، جہاں بیٹھیں وہیں میلہ سجا لیتے ہیں..
خود ان کے بقول ۔۔۔
جہاں بیٹھیں وہیں میلہ لگے ہے خاکساروں کا
فقیروں کو تو زیبا ہی نہیں دربار کا میلہ
مگر ایک میلہ وہ بھی ہے جو ہر سال ملکہ کوہسار مری کے دامن میں ان کے آبائی علاقے سنبل بیاہ کے پر فضا مقام پر، پروفیسر صاحب کے گھر کے صحن میں سجتا ہے۔ کم و بیش چھ سے آٹھ گھنٹے پر محیط اس میلے میں سیمینار، کتابوں کی نمائش اور مشاعرے کے بعد شرکائے محفل کے لیے طعام کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ یہ محفل اتنی بڑی، ہمہ جہت اور بھرپور ہوتی ہے کہ جس کا انعقاد ایک منظم ٹیم کے بغیر ممکن نہیں مگر پروفیسر اشفاق کلیم کی کرشمہ ساز شخصیت کے سحر میں گرفتار عشاق علم و ادب محض ایک آدھ سوشل میڈیا پیغام کے ذریعے دور دراز علاقوں اور شہروں سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ یوں "تمہارے نام پر آئیں گے غم گسار چلے” کے مصداق دیکھتے ہی دیکھتے ملکہ کوہسار کے دامن میں چیڑ اور دیودار کے درختوں کے سائے تلے سر شام ہی اہل فکر و دانش کا میلہ سج جاتا ہے، جو چاندنی رات میں نصف شب کے قریب اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس تقریب کے حاضرین میں جامعات اور کالجوں کے اساتذہ بھی ہوتے ہیں اور طلبہ و طالبات بھی۔ ڈاکٹر اور انجینئر بھی شریک محفل ہوتے ہیں تو مزدور رہنما بھی۔ کاروباری طبقے کی نمائندہ شخصیات بھی کشاں کشاں چلی آتی ہیں اور پہاڑی دیہات کے دامن میں بسنے والے بھی۔ اس لیے کہ ان سب کو یہ محفل اپنی اپنی سی لگتی ہے کیونکہ اس کے روح رواں اور مدار المہام پروفیسر اشفاق کلیم عباسی کی شخصیت میں ہر کسی کو اپنا دوست، مربی اور غم گسار نظر آتا ہے۔ چنانچہ لوگ تاخیر سے آنے پر ان کی ڈانٹ بھی سن لیتے ہیں اور غیر حاضر رہنے کی صورت میں مہینوں منہ چھپائے پھرتے ہیں کہ کہیں گوشمالی نہ ہو جائے۔
اس بار پروفیسر صاحب نے عید الاضحی کے تیسرے دن یعنی 9 جون کو یہ محفل اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر پھپھڑیل کے مقام پر واقع فاطمہ گرلز کیڈٹ کالج میں برپا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی دوستوں کو یہ تشویش تھی کہ بقرہ عید کے موقع پر جب وطن عزیز کے در و دیوار، پہاڑ اور اشجار مٹن کڑاہی اور بیف کباب کی خوشبو کے خمار میں مست ہوں گے اور کم و بیش ہر شکم سے باربی کیو کے لیے "ھل من مزید” کی صدائیں بلند ہو رہی ہوں گی (ویسے بھی لوگ ان تعطیلات کو اپنے خاندانوں کے ساتھ گزارنے کے لیے مہینوں پہلے منصوبہ بندی کر چکے ہوتے ہیں)، تو ایسے میں علم و ادب کی باتیں کرنے، کتابوں کا میلہ دیکھنے اور شعر و شاعری سننے کے لیے کون وقت نکالے گا۔ مگر ہر سال کی طرح اس سال بھی دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں منگل کا سماں پیدا ہو گیا۔ کالج کے صحن میں لگی کرسیاں مغرب سے پہلے بھر گئیں۔ ہم نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا تھا کہ آج کے دور میں ادبی محفل کو دیکھ کر اس پر تعزیتی اجلاس کا گماں ہوتا ہے، جہاں مقررین صرف اپنی بات سنانے کے لیے آئے ہوتے ہیں اور حاضرین کی اکثریت نیند پوری کرنے کے لیے۔ مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا تھا۔۔جوں جوں تقریب آگے بڑھ رہی تھی، حاضرین کا جوش و ولولہ بھی مہمیز پکڑ رہا تھا۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد کوہسار یونیورسٹی مری کے طالب علم صیام قریشی نے نعتیہ کلام اقبال اس خوب صورت لے اور ترنم سے پیش کیا کہ گویا سماں باندھ دیا۔
پھر محفل آگے بڑھی اور بڑھتی چلی گئی۔ کوہسار کے نامور شاعر راشد عباسی نے پروفیسر اشفاق کلیم کے ساتھ نظامت کا بوجھ بھی اٹھایا اور "ارباب فکر و دانش” کے تحت علمی ادبی سرگرمیوں کی غرض و غایت پر سیر حاصل گفتگو بھی کی۔ وجیہہ الاسلام عباسی نے مدلل انداز میں "معاشی شکست و ریخت کا جائزہ” پیش کیا۔ ڈاکٹر یاسر ستی الخیری نے صوفی ازم اور مثبت تبدیلی کے موضوع پر روشنی ڈالی۔پروفیسر ڈاکٹر کامران خان ستی نے” پولیٹیکل اکانومی اور جائزے ” کے عنوان سے ہمیشہ کی طرح بصیرت افروز گفتگو کی اور سوچ کے نئے در وا کیے۔ڈاکٹر یاسر عرفات نے ادب اور پولیٹیکل اکانومی کے باہمی رشتے اور معاشرے پر اس کے اثرات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا۔ نامور تجزیہ کار ڈاکٹر عابد عباسی نے پاکستانی معاشرے پر ضیاء مارشل لا کے اثرات پر پرجوش گفتگو کر کے خوب رنگ جمایا، مگر اس سے بڑھ کر مصطفیٰ زیدی کی طویل نظم اپنے جادوئی انداز بیان سے سنا کر کئی گھنٹے سے جاری محفل کو پھر سے گرما دیا۔ کامریڈ شوکت علی نے پاکستان میں ٹریڈ یونین کے کردار پر جامع اور مستند حوالوں کے ساتھ پرمغز گفتگو کی۔ خطہ کوہسار سے تعلق رکھنے والے ملک کے نامور صحافی جاوید صدیق نے اپنے صدارتی خطاب میں ریاست پاکستان کی ترجیحات اور سول حکمرانی کے موضوع پر اظہار خیال کرنے کے علاوہ حاضرین کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔ پروفیسر اشفاق کلیم عباسی نے "حریت فکر اور ادب” کے موضوع پر گفتگو کی۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے نئے شعری مجموعے "نگار خانہ من” ، راقم کی کتاب "صحافت بیتی” اور راشد عباسی کی "عشق اڈاری” کے علاوہ پہاڑی جریدے "رنتن” کا تعارف بھی پیش کیا۔ مذکورہ کتابیں پچاس فیصد رعایت پر پنڈال میں لگے اسٹال پر بھی موجود تھیں اور بعض شرکاء نے پروگرام ختم ہونے پر اس کا فائدہ بھی اٹھایا۔
کالج کے منتظم پروفیسر آفتاب خان نے خیر مقدمی کلمات ادا کئے جبکہ شرکائے محفل نے ان کی ٹیم کے حسن انتظام کی تعریف کی۔
تقریب کے آخری حصے میں مشاعرہ رکھا گیا تھا جس میں پروفیسر اشفاق کلیم، راشد عباسی، تیمور ذوالفقار، اظہر حیات اور سہراب الرشید عباسی اور راقم الحروف (سجاد عباسی) نے اپنا کلام پیش کیا۔
اس مشاعرے میں بھی خود پروفیسر اشفاق کلیم کی مثنوی خاصے کی چیز تھی جو ان کے نئے شعری مجموعے "نگار خانہ من” کا حصہ ہے۔ یوں یہ محفل چاندنی رات میں نصف شب سے پہلے اختتام پذیر ہوئی اور حاضرین خوبصورت یادیں لے کر رخصت ہوئے۔