میگزین رپورٹ :
ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کی حالت غیر کر دی ہے۔ جنگی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران نے اب تک اپنے میزائل ارسنل کا صرف پانچ فیصد حصے سے بھی کم استعمال کیا ہے۔
عبرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ تل ابیب، یروشلم، حیفہ، ایلات، شمعونا، کریات اور دیگر اسرائیلی شہروں میں جو تباہی گزشتہ دو دنوں میں ہوئی ہے۔ اسے اسرائیلی حکومت چھپا رہی ہے اور اس نے مکمل سنسر شپ ناقذ کردی ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ ’ایرانی حملوں کے دوران سنسر شپ نافذ کرنا اسرائیل کے لیے عالمی ہمدردیوں کو متاثر کر رہا ہے۔
نیتن یاہو سیاسی مفادات کے لیے اسرائیل کی ریاست کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ جو حمایت ہمیں اپنی اتحادیوں سے ملنی چاہیے۔ وہ اب تک میسر نہیں اور اس کی ذمہ دار نیتن یاہو کی حکومت ہے‘۔ دوسری جانب جنگی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے آئندہ دو ہفتوں تک ایران پر براہ راست حملے کا پلان موخر کرنے کا فیصلہ اسرائیلی قیادت کیلئے باعث تشویش ہے۔ کیونکہ اسرائیل ایرانی میزائلوں سے نمٹنے کی اپنی صلاحیت کھوچکا ہے۔ ایسے میں مزید دو ہفتوں کا انتظار اسرائیلی ریاست کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ہی ملک میں جاری خانہ جنگی کی صورت حال کے پیش نظر ایران کے خلاف جنگ میں کودنے کا فیصلہ ترک کیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں کے ذریعے صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو پیغام پہنچایا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو بی ٹو بمبار کے علاوہ تمام فوجی امداد جاری رکھے گا۔ لیکن اسرائیل خود اپنے دم پر ایران سے مقابلہ کرے۔
ادھر روس نے امریکا کو ایران پر ممکنہ حملے سے خبردار کر دیا ہے۔ کریملن کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ استعمال ایک تباہ کن پیشرفت ہو گا۔ اسی طرح برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریلیا نے بھی ایران کے جوہری پروگرامز پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اس انکار کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیل نے ایران کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کے حوالے سے اب تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ادھر تہران حکومت نے اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے اعلان کردیا ہے۔
ایک ایرانی اعلیٰ اہلکار نے الجزیرہ نیوز کو بتایا کہ ’’نیتن یاہو کے خاتمے تک اور غزہ میں مکمل جنگ بندی تک ایران اپنے حملوں نہیں روکے گا‘‘۔ ادھر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ خندب ہیوی واٹر پروڈکشن پلانٹ کی اہم عمارتوں بشمول ڈسٹلیشن یونٹ کو نقصان پہنچا ہے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے باعث ’تاحال کوئی بڑا ریڈیو لوجیکل حادثہ پیش نہیں آیا۔ لیکن اب بھی ایسے کسی حادثے کے امکانات موجود ہیں‘۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں یہ بھی اہم ہے کہ آئی اے ای اے کو بروقت اور تسلسل کے ساتھ جوہری تنصیبات سے متعلق تکنیکی معلومات فراہم کی جائیں۔
دوسری طرف ایرانی وزارت دفاع کے بقول ’’ہم نے اپنی افواج کو کئی برسوں تک لڑنے کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ ملک کی فوجی صنعتوں پر اسرائیلی حملوں کے باوجود تمام فوجی تنصیبات بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ ایرانی حملوں کے آغاز سے اب تک 2500 سے زائد صہیونی شہری زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہلاک افراد کی تعداد 50 تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 657 افراد شہید ہوئے اور 2 ہزار 37 دیگر زخمی ہوئے۔ ایران کے ساتھ تنازع سے اسرائیل کو روزانہ کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسرائیلی انٹر سیپٹر میزائلوں کی قیمت یومیہ 200 ملین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔