امت رپورٹ :
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے مابین وائٹ ہائوس میں لنچ کے موقع پر ہونے والی ملاقات اب تک زیر بحث ہے۔ دونوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟ اس حوالے سے مختلف افواہیں زیر گردش ہیں۔ بعض آستین کے سانپ حسب سابق اس ملاقات کو منفی رنگ دینے کے لیے بھارت کی زبان بول رہے ہیں اور ان کا الزام ہے کہ فیلڈ مارشل نے اس ملاقات کے موقع پر ٹرمپ کو پاکستان میں امریکی اڈے دینے کی یقین دہانی کرادی ہے، تاکہ انہیں ایران کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔
معروف باخبر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کے بقول یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد فیلڈ مارشل کے مثبت اور کارآمد دورے کے اثر کو زائل کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے سے متعلق کسی قسم کی کوئی یقین دہانی کرانی تو دور کی بات ہے، یہ موضوع ہی زیر بحث نہیں آیا۔ امریکہ کو پاکستان میں بیسز کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ خلیجی ممالک سمیت ایران کے اردگرد کے تمام ممالک میں پہلے سے امریکی اڈے موجود ہیں اور چالیس ہزار سے زائد فوجی بھی ہیں۔
ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے مابین ملاقات میں ایران، اسرائیل جنگ کو لے کر آخر کیا بات ہوئی اور خطے کی موجودہ صورتحال کس طرف جاسکتی ہے؟ ان سارے سوالات کا بھی آصف ہارون نے جواب دیا ہے، جو نذر قارئین ہے۔
س: ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے مابین ایران اسرائیل جنگ کو لے کر اصل بات کیا ہوئی ہے؟
ج: اس کا جواب دینے سے پہلے کچھ تمہید باندھنا ضروری ہے، تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آسکے۔ اگر امریکہ، سینٹ کوم اور ٹرمپ کی ساری کیبنٹ جنرل عاصم کے لیے آنکھیں بچھا رہی ہے تو اس کے مختلف عوامل ہیں۔ وہ یہ کہ جنرل عاصم نے مڈل ایسٹ اور سائوتھ ایشیا کے دو بدمعاش ریاستوں اسرائیل اور بھارت کو چار دن میں لٹادیا۔ یہ امریکہ کے لیے حیران کن بات تھی۔ پھر یہ کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور جیتی بھی۔ چند روز پہلے سینٹ کوم کمانڈر نے بھی اس کا اعتراف کیا اور ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان سے دوستی بڑھائو۔ یہ امریکہ کی اپنی مجبوری ہے۔ وہ جنرل عاصم منیر کی صلاحیتوں سے متاثر ہے اور دیکھ رہا ہے کہ جنرل عاصم کس طرح بیرونی سازشوں اور اندرونی خلفشار پر تیزی سے قابو پا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی نئی لہر اور کلٹ ازم کے ساتھ بھی کامیابی سے نمٹ رہے ہیں۔ فوج کے اندر جو دراڑیں پڑ رہی تھیں، انہیں بھی ختم کیا۔ ملکی معیشت جو ڈیفالٹ کی طرف جارہی تھی، اسے ٹریک پر ڈالا۔ بھارت کو دو تین رائونڈ میں سیز فائر پر مجبور کردیا۔ یہ وہ سارے عوامل ہیں، جس کے سبب امریکہ کی موجودہ قیادت نے جنرل عاصم منیر کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کیونکہ دنیا میں امریکہ کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اسے چین سے خطرہ ہے۔ روس اور یوکرین کا معاملہ اس کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ غزہ سنبھل نہیں رہا۔ اور اب ایران، اسرائیل جنگ نے مشرق وسطیٰ میں ایک تباہ کن صورتحال پیدا کردی ہے۔ ایسے میں امریکہ کو سائوتھ ایشیا میں پاکستان جیسے ملک کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بھارت تو اس کی توقعات سے کہیں زیادہ کمزور نکلا۔ اب وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کم از کم اس کے خلاف تو نہ ہو۔ کیونکہ پاکستان کے لیے امریکہ مخالف ایسٹرن بلاک کا راستہ کھلا ہے۔ چین، روس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل دیگر ممالک کی خواہش ہے کہ پاکستان ایسٹرن بلاک کو جوائن کرلے، تاکہ نیو ورلڈ آرڈر بنایا جائے۔ اس میں افغانستان کو بھی آن بورڈ کرلیا گیا ہے۔ جبکہ شمالی کوریا کے پہلے ہی چین اور روس کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ ایسے میں امریکہ کہاں کھڑا ہوگا؟ دوسری جانب اسرائیل سمجھتا تھا کہ وہ ایران کو ایک گھنٹے میں لٹادے گا۔ لیکن ایران مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور دنیا کو حیران کردیا۔ اس تمام بدلتے سیناریو میں پاکستان ایک اہم کھلاڑی بن کر ابھرا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ نے الیکشن بطور امن کے علمبردار کے نعرے پر جیتا تھا کہ وہ دنیا میں جنگیں بند کرائیں گے۔ غزہ کے مسئلے کا مستقل حل نکالیں گے۔ اس بنیاد پر انہیں مسلم ووٹ بھی پڑا تھا۔ لیکن ٹرمپ کا عمل اس سے مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ البتہ پاک بھارت جھڑپ کے خاتمے کا کریڈٹ لے کر ٹرمپ نے اپنے نمبر بنالئے ہیں۔ پاکستان نے اس کی تائید کی ہے۔ اب ٹرمپ اس بنیاد پر امن کا نوبیل پرائز کے خواہاں ہیں کہ انہوں نے دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ رکوائی اور بقول ان کے انہوں نے روانڈا، کانگو، سربیا اور کوسوو میں بھی امن قائم کرایا۔ لیکن ٹرمپ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل ان کی بات نہیں مان رہا۔ سب کو معلوم ہے کہ ہر امریکی صدر پر صہیونی لابی کا کس قدر اثر ہوتا ہے۔ یہاں ٹرمپ پھنس گئے ہیں۔ اس لئے انہیں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وائٹ ہائوس میں لنچ کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں فیلڈ مارشل آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ٹرمپ کو آفر کی کہ وہ ایران کی طرف سے ثالثی کے لیے تیار ہیں اور آپ اسرائیل کی طرف سے ثالثی کریں۔ دونوں مل کر اس جنگ کو ختم کراتے ہیں، جس نے خطے میں ایک خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ ٹرمپ کو یہ بھی کہا گیا کہ اس کوشش میں کامیابی پر ان کا امن کی علمبرداری کا موقف مضبوط ہوگا اور امن کے نوبیل انعام کے لیے ان کا کیس بھی تگڑا ہوجائے گا۔ ایران، اسرائیل معاملے پر دونوں کے مابین اصل بات چیت یہی ہوئی ہے، جس سے ٹرمپ نے اتفاق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ٹرمپ کا لہجہ بدل چکا تھا اور پہلے جیسا جارحانہ نہیں تھا۔ پھر سب نے دیکھا کہ اچانک انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ ایران پر حملے سے متعلق دو ہفتے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔ یہ سب کچھ فیلڈ مارشل سے ٹرمپ کی ملاقات کے نتیجے میں ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ ہر صورت امن کا نوبیل انعام لینا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے خیال میں جب دنیا میں تباہ کن پالیسیاں چلانے والے باراک اوباما کو امن کا نوبیل پرائز مل گیا تو انہیں کیوں نہیں مل سکتا۔ انہیں یہی سمجھایا گیا ہے کہ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو امن کے نوبل انعام کے لیے ان کا موقف کمزور ہوگا اور انہوں نے دنیا میں جنگیں ختم کراکے امن قائم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، وہ بری طرح متاثر ہوگا۔ جبکہ اس کے نتیجے میں خطے میں لگنے والی آگ خطرناک صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔ قصہ مختصر فیلڈ مارشل، بڑی حد تک ٹرمپ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ وہ ایران کی جنگ میں براہ راست ملوث ہونے سے دور رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ مذاکرات کے ذریعے سیز فائر کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ بصورت دیگر ٹرمپ جی سیون کا اجلاس چھوڑ کر اسی لئے ہنگامی طور پر واپس آئے تھے کہ ایران پر حملے کی تیاری کر سکیں۔ تب یہ خبریں چل رہی تھیں کہ آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں امریکہ ایران پر حملہ کردے گا۔ لیکن فیلڈ مارشل سے ملاقات کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی۔ اب دیکھنا ہے کہ اسرائیل جس کے وہ بہت زیادہ زیر اثر ہیں، اسے سیز فائر پر آمادہ کرنے میں ٹرمپ کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔
س: ٹرمپ، فیلڈ مارشل کی یقین دہانی پر آسانی سے کیسے قائل ہوگئے؟
ج: ٹرمپ نے ایران کی جانب سے فیلڈ مارشل کی ثالثی کے ثمر بار ہونے پر اس لئے یقین کیا ہے کہ اس وقت دنیا میں واحد پاکستان ہے جو پوری طرح ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت، ایران کا ڈیفنس اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے، لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ اس وقت فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرے ہیں اور ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں مشکل سے نکال لیں گے۔
س: کیا اس ملاقات کی اصل تفصیلات سے ایران آگاہ ہے؟
ج: سو فیصد آگاہ ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ جنرل عاصم بھی ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ بحرانوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ جنرل عاصم کی دوست بنانے کی صلاحیت بھی حیران کن ہے۔ بھارت سے جھڑپ کے موقع پر ترکی اور آذربائیجان جس طرح پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے، ایسا ماضی میں پہلے نہیں ہوا۔ ایران بھی اس وقت مسلم ممالک میں سب سے زیادہ پاکستان کے قریب ہے۔ افغانستان سے تعلقات معمول پر آچکے ہیں۔ جنرل عاصم کو لے کر یہ سارے مثبت پوائنٹس ہیں۔
س: امریکہ جنگ میں براہ راست شامل نہیں بھی ہوتا تو آنے والے دنوں میں ایران، اسرائیل جنگ کس طرح جاتی دکھائی دیتی ہے؟
ج: موجودہ بدلتی صورتحال میں ایران کے خلاف امریکہ کی براہ راست کارروائی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو جب اسے پکا یقین ہوجائے گا کہ امریکہ براہ راست جنگ میں شامل نہیں ہونے جارہا تو اسے بیک فٹ پر آنا پڑے گا۔ اسرائیل اپنے طور پر جارحیت جاری رکھتا ہے تو ایران کے پاس تین سے چار قابل عمل آپشنز ہیں۔ ایک یہ کہ میزائل حملے جاری رکھے، اس کے پاس میزائلوں اور ڈرونز کا اب بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ پھر یہ کہ ایران کے ڈرون اور میزائل سازی کے پلانٹس ابھی تک محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ باہر سے بھی اسے میزائل مل سکتے ہیں۔ یہ ایران کے لیے بہترین آپشن ہے، کیونکہ امریکہ کی شمولیت کے بغیر اسرائیل زیادہ عرصے تک یہ جنگ نہیں لڑ سکتا۔ ایران کے پاس دوسرا آپشن آبنائے ہرمز کو بند کرنا ہے، جہاں سے دنیا کا بیس سے تیس فیصد تیل اور ایل پی جی گیس جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جاپان اور یورپ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور ان کی معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تیسرا آپشن ایٹمی دھماکہ کرنے کا ہے۔ ایران کے پاس ساٹھ فیصد افزودہ یورینیم ہے۔ اسے نوّے فیصد افزودگی تک لے جاکر ایران کبھی بھی آٹھ سے دس ایٹم بن بنا سکتا ہے۔ چوتھا آپشن یہ ہے کہ ایران اپنی افزودہ یورینیم اور فعال سنیٹری فیوجز کسی نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کر دے۔ اور ہوسکتا ہے اس نے منتقل کر بھی دیئے ہوں۔