عمران خان :
پاکستان کے صوبے پنجاب سے چلنے والی ’’سائبر کرائم یونیورسٹی‘‘ بے نقاب ہونے بعد نیٹ ورک کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بھی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا۔ اب تک 50 کروڑ سے زائد کے اثاثے منجمد کئے گئے۔ جبکہ کرپٹو کرنسی کی پارکنگ کے 150 اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں۔ یہ نیٹ ورک امریکی ایف بی آئی، ڈچ پولیس اور پاکستان کی این سی سی آئی اے کی مشترکہ کاوش سے پکڑا گیا۔ یورپ اور امریکہ میں 100 سے زائد کیسوں میں ملوث یہ گروپ لاکھوں ڈالرز کی آن لائن وارداتیں کرچکا ہے، جس سے دبئی میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
موصول معلومات کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں بینک اکاؤنٹس ہیک، مالیاتی دھوکہ دہی، کرپٹو کرنسی میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور آن لائن فراڈ کے تربیتی کورسز دینے والا بین الاقوامی سائبر کرائم نیٹ ورک درحقیقت پاکستان سے چلنے والی ایک ’’ڈیجیٹل جرائم کی یونیورسٹی‘‘ نکلا، جس کا سراغ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (FBI) اور ڈچ پولیس کے تعاون سے لاہور و ملتان میں خفیہ اور مربوط چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران لگایا۔
تحقیقات میں مزید معلومات ملیں کہ یہ محض ایک سائبر نیٹ ورک نہیں تھا، بلکہ باقاعدہ ایک منظم جرائم کی تربیتی فیکٹری تھی۔ جہاں دنیا بھر کے دھوکہ بازوں کو نہ صرف آن لائن مالیاتی جرائم کے جدید ترین سافٹ ویئر فراہم کیے جاتے۔ بلکہ انہیں مرحلہ وار ویڈیو ٹیوٹوریلز کے ذریعے سکھایا بھی جاتا تھا کہ کس طرح انسانی نفسیات، فشنگ اور فیک ویب سائٹس کے ذریعے عام شہریوں سے لاکھوں ڈالر لوٹے جا سکتے ہیں۔ ملزمان نے فشنگ کٹس، جعلی ویب سائٹ ٹیمپلیٹس، ای میل ایکسٹریکٹرز جیسے خطرناک سافٹ ویئر تیار کیے جو سیکورٹی سسٹمز سے بچ نکلنے کے لیے اس قدر موثر بنائے گئے کہ جدید اینٹی وائرس اور سائبر ڈیفنس سسٹمز بھی ان کی شناخت نہ کر سکیں۔
این سی سی آئی اے کے مطابق چھاپوں کے دوران لاہور اور ملتان میں گروہ کے ٹھکانوں سے 32 جدید ڈیجیٹل ڈیوائسز برآمد ہوئیں، جن میں ایسے سرورز بھی شامل تھے جن میں دنیا بھر کے 11 ہزار سے زائد متاثرین کی معلومات موجود تھیں۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، اور مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل تھے۔ تحقیقات میں بلیک منی سے بنائی گئی پنجاب سے دبئی تک اربوں روپے کی کرپٹو کرنسی اور جائیدادوں کا جال بھی سامنے آیا ہے۔ شواہد کے مطابق انکشاف ہوا کہ گروہ نے فراڈ سے حاصل ہونے والی رقم کو کرپٹو کرنسی کی صورت میں مختلف عالمی پلیٹ فارمز پر منتقل کر رکھا تھا۔ اب تک 150 سے زائد کرپٹو اکاؤنٹس کی نشاندہی ہو چکی ہے۔
گروہ نے اس دولت سے دبئی میں مہنگے اپارٹمنٹس خرید رکھے تھے جن کے دستاویزی شواہد بھی قبضے میں لے لیے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی 48 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں، جن میں ایک لیمبورگینی اوروس سمیت دیگر پرتعیش گاڑیاں شامل ہیں۔ ملزمان نے لاہور کے بحریہ ٹاؤن اور ملتان کے فاطمہ ایونیو کو اپنے جرائم کا ہیڈکوارٹرز بنا رکھا تھا۔
معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم رمیز شہزاد عرف صائم رضا، جو لاہور کے بحریہ ٹاؤن کے گل بہار بلاک میں واقع دو گھروں (نمبر 75 اور 797) سے گروہ کی تکنیکی اور مالی سرگرمیاں چلا رہا تھا، اس نیٹ ورک کا سرغنہ قرار پایا۔ اس کے ساتھ ملتان میں حسنین حیدر نے فاطمہ ایونیو پر پرائم مارٹ کے قریب اپنے مقام سے آپریشن سنبھال رکھا تھا۔ گرفتار ہونے والے 21 افراد میں لاہور سے رمیز شہزاد، اس کے والد محمد اسلم، عاطف حسین، یاسر علی، صائم علی شاہ، برہان الحق اور ملتان سے حسنین حیدر، بلال احمد، محمد عدیل اکرم، اویس رسول، اسامہ فاروق و دیگر شامل ہیں۔ رمیز شہزاد کے والد نے تفتیشی ٹیم کے سامنے اپنے بیٹے کی مجرمانہ سرگرمیوں کا اعتراف بھی کیا۔
این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے مطابق یہ نیٹ ورک صرف مالی نقصان کا ذریعہ نہیں تھا۔ بلکہ سائبر دہشت گردی کا منظم مرکز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف امریکا میں اس نیٹ ورک کے تیار کردہ ٹولز سے 50 ملین ڈالر (تقریباً 14 ارب روپے) کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ یورپ میں بھی 63 مقدمات کی تفتیش جاری ہے۔
اب تک تمام گرفتار ملزمان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مفرور ارکان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ریڈ نوٹسز کے لیے انٹرپول کو مضبوط شواہد پر مبنی فائلیں فراہم کی جا رہی ہیں۔