ارشاد کھوکھر:
بجٹ میں تقریباً ہر سال تنخواہوں میں جو اضافہ کیا جاتا ہے، اس کے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلند بانگ اعلان کرتی ہیں کہ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے حاضر سروس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے صرف تقریباً ڈھائی فیصد سرکاری ملازمین ہی فیضیاب ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی تمام پرائیویٹ ملازمین اس فائدے سے محروم رہتے ہیں۔ اس طرح ملک کی تقریباً پچھتر فیصد سے زائد آبادی متعلقہ سیٹھوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اور یہ تماشا پچھلے ستتر برس سے چل رہا ہے۔
جہاں تک عام آدمی کو ریلیف دینے کی بات ہے تو وہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب پرائیویٹ ملازمین کی کم سے کم ماہانہ اجرت جو مقرر کی جاتی ہے، اس میں ناصرف خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہ حکومت جو بھی کم سے کم اجرت مقرر کرتی ہے اس پر عمل درآمد ہوسکے جو کبھی بھی نہیں ہوسکا ہے۔
’’امت‘‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گریڈ ایک سے گریڈ بائیس تک کے تمام حاضر سروس ملازمین و افسران کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ ہے۔ جن میں سے وفاقی حکومت کے افسران و ملازمین کی تعداد تقریباً پونے چودہ لاکھ، پنجاب کی صوبائی حکومت کے ملازمین کی تعداد تقریباً دس لاکھ دس ہزار، حکومت سندھ کے ملازمین کی تعداد تقریباً ساڑھے سات لاکھ تک ہے۔ جبکہ خیبر پختون حکومت کے ملازمین کی تعداد تقریباً پانچ لاکھ ستر ہزار اور بلوچستان حکومت کے ملازمین کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے۔
اس طرح مردم شماری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ملک بھر کی چوبیس کروڑ آبادی میں سے چالیس لاکھ حاضر سروس سرکاری ملازمین کی تعداد تقریباً ایک اعشاریہ چھیاسٹھ فیصد ہے۔ اگر اس میں پنشنرز یعنی سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد کو بھی شامل کیا جائے تو وفاق اور صوبائی حکومتوں میں ان کی تعداد حاضر سروس ملازمین کے مقابلے میں اننچاس سے تریپن فیصد یعنی اوسطاً ان کی تعداد اکیاون فیصد یعنی تقریباً بیس لاکھ چالیس ہزار ہوتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تنخواہوں اور پنشن میں جو اضافہ کرتی ہیں اس سے تقریباً ڈھائی فیصد افراد ہی مستفید ہوتے ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں فی گھرانہ اوسطاً چھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس حساب سے بھی اگر دیکھا جائے کہ اگر ہر سرکاری ملازمین چھ افراد کی کفالت کرتا ہے تو اس حساب سے بھی تنخواہوں اور پنشن میں ہونے والے اضافے کا فائدہ صرف پندرہ فیصد آبادی کو ہوتا ہے۔ ملک کے باقی مزدور، کسانوں سمیت پرائیویٹ شعبے میں کام کرنے والے افراد متعلقہ سیٹھوں اور زمینداروں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔
ملک کی اشرافیہ ، صنعت کاروں و دیگر بڑی کاروباری شخصیات کی تعداد صرف دو فیصد ہے۔ اس طرح باقی آٹھ دس فیصد وہ سیٹھ بھی ہیں جن کے پاس باقی افراد ماہانہ اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی پچھتر فیصد آبادی کو تنخواہوں میں اضافے سے کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ جبکہ حکومت کا دعویٰ ہمیشہ اس کے برعکس رہا ہے۔
حکومت ہر دو تین چار سال کے بعد ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کی ماہانہ کم سے کم اجرت میں تھوڑا بہت اضافہ کرکے یہ تاثر دیتی ہے کہ انہیں محنت کش طبقہ بڑا عزیز ہے۔ لیکن اس مہنگائی کے دور میں بھی دیکھا جائے تو گزشتہ سال بھی کم سے کم ماہانہ اجرت میں اضافہ کیا گیا، اس اضافہ کو دیکھا جائے تو اس وقت بھی کم سے کم ماہانہ اجرت صرف سینتیس ہزار روپے ہے۔ جبکہ خیبر پختون حکومت نے بجٹ میں یکم جولائی سے کم سے کم ماہانہ اجرت تین ہزار اضافے کے ساتھ چالیس ہزار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اپنی بجٹ تقریر میں یہ کہا ہے کہ اس سلسلے میں اسٹیک ہولڈرز (ایمپلائرز) یعنی صنعت کاروں و کاروباری شخصیات سے مشاورت کے بعد کم سے کم ماہانہ اجرت کے تعین پر نظر ثانی کریں گے۔ اس سلسلے میں محکمہ محنت و افرادی قوت کے ریٹائرڈ افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کم سے کم اجرت پر نظر ثانی کی بھی گئی تو وہ بھی صرف تین ہزار روپے اضافے تک محدود ہوگی۔ کیونکہ صنعت کار اور کاروباری شخصیات نے کبھی بھی کم سے کم اجرت میں اضافہ کرنے پر خوشی سے آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔ اور کئی مرتبہ یہ معاملات لیبر کورٹ تک بھی جا پہنچتے ہیں۔
مہنگائی کے اس دور میں ایک محنت کش ماہانہ چالیس ہزار اجرت پر کیسے گزارہ کرتا ہوگا؟ اس کا اندازہ سب کو ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ حکومت جو کم سے کم ماہانہ اجرت طے کرتی ہے، اس کا اطلاق عملی طور پر صرف بڑے صنعتی یونٹس تک محدود ہوتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے چھوٹے موٹے صنعتی یونٹ بھی ہیں جو محکمہ محنت و افرادی قوت و دیگر سرکاری محکموں و اداروں کے پاس رجسٹر ہی نہیں ہیں۔ اس طرح جو صنعتی یونٹس رجسٹر ہی نہیں ہیں تو ان میں کام کرنے والے مزدور ناصرف ای او بی آئی اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں۔ بلکہ انہیں کم سے کم اجرت بھی دیگر صنعتی یونٹس کی طرح نہیں ملتی۔
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صنعتی مزدوروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ قانون کے مطابق حکومت جو کم سے کم ماہانہ اجرت نوٹیفائیڈ کرتی ہے اس کا اطلاق صرف صنعتی مزدوروں تک نہیں بلکہ تمام نجی دفاتر ، مارکیٹ، دکانوں ، بازاروں، ہوٹلز، گھریلو ملازمین ، بھٹہ مزدوروں سمیت تمام ان افراد پر ہوتا ہے جو کسی کے پرائیویٹ شخص کے پاس ملازمت کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی لیبر انسپکٹر سے لے کر اوپر تک لین دین کرکے ریکارڈ بنانے کی خانہ پری کی جاتی ہے۔
اگر کسی کے پاس تین ملازم کام کر رہے ہو تو یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایک ملازم کام کر رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ آج بھی نجی شعبے میں کام کرنے والے ان افراد کی اکثریت کو بڑی مشکل سے ماہانہ دس ہزار سے بیس ہزار روپے تک کی اجرت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب تک سرکاری ملازمین کی طرح نجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے ان ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے تحفظ نہیں دیا جائے گا، تب تک غربت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین بھی ہیں جن کی ماہانہ تنخواہیں نجی ملازمین کے لئے ماہانہ کم سے کم سینتیس ہزار روپے کی جو اجرت مقرر کی گئی ہے اس سے بھی کم ہے۔ یقینا ایسے نچلے گریڈ کے ملازمین کو بھی ریلیف دینا ضروری ہے۔ اس بات کی نشاندہی خود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تیرہ جون کو آئندہ مالی سال کی بجٹ تقریر میں کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گریڈ ایک سے گریڈ چھ تک ایسے ملازمین بھی ہیں جن کی تنخواہیں سینتیس ہزار روپے سے کم ہیں۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ایسے ملازمین کو پرسنل پے کی فراہمی جاری رکھی جائے گی تاکہ انہیں ماہانہ کم سے کم سینتیس ہزار روپے ادا ہوسکیں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں رواں مالی سال میں دو لاکھ سولہ ہزار چھ سو سڑسٹھ سرکاری ملازمین کو آٹھ ارب ستائیس کروڑ ستر لاکھ کی مالی معاونت کرچکی ہے۔ اور آئندہ مالی سال دو ہزار پچیس چھبیس میں مزید ایک لاکھ تریسٹھ ہزار سات سو ایک ملازمین کو یہی ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ جس پر سال میں چار ارب بیالیس کروڑ چالیس لاکھ خرچ ہوں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے اس اعلان کو دیکھا جائے تو حکومت نچلے گریڈ کے ملازمین کے لئے جو پے اسکیل تشکیل دیتی ہے، اس میں ان ملازمین کے لیے خصوصی الائونسز وغیرہ کا مستقل بندوبست کیا جائے۔ تاکہ ایسے ملازمین حکومت کی مالی معاونت کے محتاج نہ ہوں۔ باقی جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی بات ہے تو افسران کی تو موجیں ہی موجیں ہیں۔