فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کا بڑا فیصلہ: پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 6کے مقابلے میں 7 کی اکثریت پر نظر ثانی درخواستیں منظور کر لیں،پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا اس طرح پی ٹی آئی فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے، اس طرح پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی۔

فیصلہ بینچ کے سات ارکان نے اکثریت کے ساتھ سنایا جس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔

12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں۔ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22 نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی55 نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ تھوڑی دیر میں شارٹ آرڈر جاری کریں گے، شارٹ آرڈر کا انتظار کریں بعدازاں بینچ نے مختصر فیصلہ جاری کردیا۔جس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کی 77 مخصوص نشستیں ن لیگ، پی پی اور دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعتیں مکمل کرلیں۔ سماعت آئی بینچ کے گیارہ کے بجائے دس رکنی بنچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہوئے۔

سماعت کرنے والا گیارہ رکنی بینچ ٹوٹ گیا

عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے  مخصوص نشستیں کیس کے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیس کی آج ہونے والی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری تھی، تاہم سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ آپ سے میرا 2010 کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔

عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ  آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔

دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔

اس موقع پر کیس کی سماعت کو 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بینچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔

سماعت کے لیے دس رکن بینچ تشکیل

سپریم کورٹ، مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت دوبارہ ہوئی تو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 10رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔