نواز طاہر:
پنجاب اسمبلی میں ہلڑ بازی، غلیظ ز بان استعمال کرنے، املاک کو نقصان پہنچانے، آئین و قواعد اور رولنگ چیلنج کرنے والے حزب اختلاف کے ایک خاتون سمیت چھبیس اراکین کو معطلی اور جرمانہ عائد کرکے اسپیکر کی رٹ قائم کردی گئی ہے۔ ان اراکین کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے اسپیکر نے خبردار کیا ’’آئندہ بھی جو رکن خواہ حکومتی یا اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھتا ہو، قواعد کی خلاف ورزی کرے گا، اسے ایسی ہی سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ میری اسمبلی ہے اور اسے پْر امن طریقے و غیر جانبداری سے چلانا میری ذمہ داری ہے۔‘‘ جبکہ اپوزیشن نے اسپیکر کے فیصلے کو مسترد کردیا۔
معطل ہونے والے چھبیس اراکین نے وزیراعلیٰ کی تقریر کے دوران اسپیکر کے مسلسل روکنے کے باوجود نعرہ بازی اور وزیراعلیٰ کے بارے نازیبا الفاظ اور جانوروں سے تشبیہہ دے کر نعرہ بازی کی تھی۔ جبکہ جرمانے کا سامنا کرنے والے سولہ اراکین نے بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ پر بجٹ دستاویزات بھی پھینکی تھیں۔ ہلڑ بازی کے دوران اسمبلی کے مائیک وغیرہ بھی ٹوٹ گئے تھے جس پر اسپیکر نے واضح کیا تھا کہ وہ اس کی کیمرے سے ریکارڈنگ دیکھ کر ذمہ داراں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
اس سے پہلے اسپیکر نے مختصر رولنگ میں اپوزیشن کے اس رویے کو اظہار رائے اور احتجاج کے مسلمہ اصولوں کے منافی قرار دیا تھا اور دو روز پہلے ایسی ہی نعرہ بازی پر مفصل رولنگ بھی جاری کی تھی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ آئین و قواعد کے خلاف ورزی پر اسمبلی کے کسٹوڈین کی حیثیت سے وہ سخت ایکشن لیں گے۔ لیکن گلے ہی روز جمعہ کو اپوزیشن نے حسبِ معمول پی ٹی آئی کے بانی کے پوسٹر اور پلے کارڈ اٹھا کر وزیراعلیٰ کی تین گھنٹے کی تقریر کے دوران مسلسل نعرہ بازی کی۔ رولنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف دستاویزات پھاڑیں اور اسمبلی میں ٹکڑے ہوا میں بکھیرے بلکہ وزیر اعلیٰ کیے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی۔
واضح رہے کہ اپوزیشن اراکین ایک طویل عرصے سے پلے کارڈ اور بینرز کے ساتھ نعرہ بازی کرتے ایوان میں داخل ہوتے ہیں اور اسپیکر انہیں متعدد بار ایسا کرنے سے منع کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی میں ایسے رویے پر راکین کو معطل کرنے اور اسمبلی کارروائی سے روکنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس کا آغاز سنہ انیس سو پچاسی میںغیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں اس وقت ہوا تھا جب اسپیکر میاں منظور احمد وٹو کے زیر صدارت اجلاس میں صدر جنرل ضیا الحق پر اعتراض کرنے پر فیصل آباد سے منتخب رکن ( پیپلز پارٹی سے رکھنے والے) فضل حسین راہی کو باہر نکال دیا گیا۔
اس کے بعد اس میں شدت جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسپیکر محمد افضل ساہی کے زیر صدارت اجلاس میں آئی، جس میں دو روز کے اندر یکے بعد دیگرے نو اراکین کو معطل کیا گیا۔ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ ن کے دور میں بھی رہی، لیکن اس کی شدت کم رہی۔ مگر پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایک بار شدت آئی اور اٹھارہ اراکین کو اس وقت کے اسپیکر سبطین خان نے معطل کردیا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اراکین کو معطل کرنے کی شدت والے مواقع پر اسپیکر محمد افضل ساہی اور محمد سبطین خان کے ادوار میںچودہری پرویز الٰہی پنجاب کے اسپیکر تھے۔ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ ایس کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن ایوان میں آئے یا نہ آئے انہیں فرق نہیں پڑتا۔ ان کے دور میں پچاس کے قریب اپوزیشن اراکین کیخلاف مقدمہ درج کروانے کی درخواست بھی دی گئی تھی۔
اراکین کی معطلی اور جرمانے کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے محکمہ اطلاعات کی وزیر عظمیٰ بخاری ( جو سبطین خان کے دوران میں معطل کی گئی تھیں) نے واضح کیا کہ یہ ( اپوزیشن راکین ) وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کررہے ہیں۔ جبکہ اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اپنی رولنگ میں واضح کیا کہ اگر کسی کو فارم پینتالیس یا سینتالیس کا مسئلہ ہے تو اس پر احتجاج باہر کریں۔ میرا مسئلہ اس ایوان کا تقدس اور حرمت برقرار رکھنا ہے۔ اپوزیشن یا حکومت میں سے جو رکن بھی آئین و قواعد کے مانفی عمل کرے گا اس کے خلاف بلا تخصیص کارروائی ہوگی۔