فائل فوٹو
فائل فوٹو

دنیا بھر میں سالانہ 25 ملین کتے انسان ڈکار جاتے ہیں

میگزین رپورٹ:

دنیا کے چند ممالک میں کتے کے گوشت کو پسندیدہ غذا کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پالتو جانوروں کی عالمی تنظیم اس کی روک تھام کیلئے سخت پاپندیوں کیلئے سرگرم ہے اور حال ہی میں جنوبی کوریا میں کتے کھانے اور اس کے فارمرز پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ تاہم کمبوڈیا، چین، انڈیا، انڈونیشیا، گھانا، لاؤس، نائجیریا، جنوبی کوریا، سوئٹزرلینڈ اور ویتنام میں کتے کا گوشت اب بھی استعمال اور کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 25 ملین کتے کھائے جاتے ہیں۔ ایک برس قبل امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں موجود تارکین وطن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یہاں کے شہریوں کے کتے چرا کر غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اسپرنگ فیلڈ، اوہائیو کی رہائشی ایریکالی نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ ان کے پڑوسی نے ان کا ایک پالتو کتا اور بلی کو چرا کر کھا لیا۔ جن کی باقیات گھر کے قریب ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملیں۔

مقامی پولیس اور شہر کے حکام نے بارہا کہا ہے کہ اسپرنگ فیلڈ میں پالتو جانوروں کو کھانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ سیاہ فام تارکین وطن پالتو کتوں کو چُرا کر کھا رہے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی کوریا میں کتا خوری پر پاپندی لگنے کے بعد اس کی فارمنگ کرنے والے تاجر رل گئے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق 2024ء میں جنوبی کوریا کی حکومت نے ملک بھر میں کتوں کا گوشت بیچنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا اور فارمرز کو 2027ء تک کی مہلت دی کہ وہ اپنے باقی ماندہ آپریشنز کو بند کر دیں اور بچے ہوئے کتوں کو بیچ دیں۔

؎گزشتہ دنوں جنوبی کوریا میں یہ قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔ اس قانون پر جنوبی کوریا کے عوام خوش نہیں، کہ وہاں کتا خوری دیگر جانوروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کتے کا گوشت فروخت کرنے والے فارمر وجو یانگ کا کہنا ہے ’’گزشتہ گرمیوں سے ہم اپنے کتوں کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن تاجر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ابھی تک ایک بھی خریدار تاجر سامنے نہیں آیا۔ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کی جانب سے آرڈرز نہ ملنے کی وجہ سے ملک بھر میں پانچ لاکھ کتے مالکان کیلئے بوجھ بن گئے ہیں۔ اس صنعت سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ کتے کے گوشت کی فروخت ہے‘‘۔

کورین ایسوسی ایشن آف ایڈیبل ڈاگز کے صدر کہتے ہیں ’’لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ ہم قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسے ادا نہیں کر سکتے اور کچھ تو یہ بھی نہیں کر سکتے کہ نیا کام تلاش کریں۔ یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے‘۔ اسی طرح ایک تاجر چان وو کے پاس 600 کتوں سے جان چھڑوانے کا چیلنج درپیش ہے۔ ورنہ انہیں دو سال جیل میں گزارنے پڑ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میری تمام جمع پونجی اس فارم پر لگی ہوئی ہے اور ابھی لوگ کتوں کو لے بھی نہیں رہے۔ اس پابندی سے پہلے یہ ہر ہفتے اوسطاً آدھا درجن کتے فروخت ہوجاتے تھے۔ حکومت نے بغیر کسی منصوبے کے اس قانون کو پاس کیا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کتوں کو رکھ ہی نہیں سکتے‘‘۔

وزارت زراعت و خوراک کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر فارم مالکان اپنے کتوں کو چھوڑ دیتے ہیں تو مقامی حکومتیں ان کی ملکیت سنبھال لیں گی اور پناہ گاہوں میں ان کا انتظام کریں گی۔ کچھ لوگوں نے اس مسئلے کا حل تلاش کیا ہے اور ان جانوروں کو کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں زیادہ خواہش مند افراد کے پاس بھیج دیا ہے۔ ادھر افریقی ملک گھانا میں کتوں کے گوشت کی خرید و فروخت کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ بعض افراد کیلئے کتے کا گوشت ایک انتہائی لذیذ خوراک ہے۔ گھانا کے بالائی مشرقی خطے میں سالانہ ہزاروں کتے مارے جاتے ہیں۔

ادھر دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں بھی کتے کے گوشت کا کاروبار عروج پر ہے۔ ملک کی 27 کروڑ آبادی کے 7 فیصد افراد کتے کا گوشت کھاتے ہیں۔ انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے شہر میدان میں جگہ جگہ کتے کے گوشت کے ریسٹورنٹس ہیں۔ کتے کے گوشت کے خلاف تحریک چلانے والے ایک گروپ کے مطابق کتے کا گوشت ان علاقوں میں زیادہ کھایا جاتا ہے، جہاں مسیحی آبادی زیادہ ہے۔ جنوبی سماٹرا، شمالی سولاویسی اور مشرقی نوسا ٹینگارا وہ علاقے ہیں، جہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور یہاں مسلمانوں کی آبادی صرف نو فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا نے بھی کتے کا گوشت کھانے، بیچنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کتے کے گوشت کی فروخت نہیں رک سکی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔