فائل فوٹو
فائل فوٹو

آخرکار 27 ویں آئینی ترمیم میں رکاوٹ دور ہوگئی

امت رپورٹ :

مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ آئینی بینچ کے حالیہ فیصلے کے بعد حکومت کو قومی اسمبلی میں دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ یوں حکومت اب اپنی مرضی سے جو بھی ترامیم کرانا چاہے گی اسے کسی بھی سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان پارلیمنٹ آزاد تصور ہوں گے یا انہیں سنی اتحاد کونسل کا رکن تسلیم کیا جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ اب اس لیے زیادہ اہم نہیں رہا کہ حکومت کو قومی اسمبلی میں ملنے والی اکثریت کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان کو توڑنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی ہے۔ لہٰذا وہ اس طرف شاید توجہ نہ دے۔ اگر خود ہی کوئی آجائے تو الگ بات ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد کو حاصل ہونے والی دو تہائی اکثریت کے بعد ستائیسویں آئینی ترامیم کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے۔ یہ متوقع آئینی ترامیم کیا ہو سکتی ہیں؟ اس بارے میں ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر تفصیل سے رپورٹس شائع کی جاچکی ہیں۔ اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ قصہ مختصر اب حکومت کے پاس کھلا میدان ہے، وہ جس نوعیت کی بھی آئینی ترامیم لانے چاہے، اس میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے سے قبل قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ارکان کی مجموعی تعداد دو سو اٹھارہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ چھبیسویں آئینی ترامیم کے لیے اسے جے یو آئی (ف) کی ضرورت پڑی تھی۔ تاہم آئینی بنچ کے فیصلے کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو مزید پندرہ اور پیپلز پارٹی کو چار اضافی نشستیں ملی ہیں۔ یوں قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کے ارکان کی تعداد دو سو سینتیس ہوگئی ہے۔ جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے دو سو چوبیس ارکان کی ضرورت تھی۔

حکمران اتحاد کے پاس اب ضرورت سے زیادہ ارکان ہیں۔ جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے تو نئی صورت حال میں یہاں بھی حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت ملنے کا امکان ہے۔ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر الیکشن کرانے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ الیکشن نہیں ہو سکا ہے۔ سینیٹ میں اس وقت حکومتی بنچز پر پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد چوبیس، مسلم لیگ ( ن) کے انیس ، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیو ایم پاکستان کے تین ارکان ہیں۔ اسی طرح حکومتی بنچز پر دو آزاد سینیٹرز اور دو ارکان انڈیپنڈنٹ بنچز پر ہیں۔ یوں ایوان بالا میں حکمران اتحاد کے ارکان کی مجموعی تعداد چون بنتی ہے، جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے یہاں تریسٹھ ارکان کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حکمران اتحاد کو مزید صرف نو ووٹ درکار ہیں۔ یہ خلا اب پُر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

دوسری جانب سینیٹ میں اس وقت پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد انیس ہے۔ اگر مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آتا تو اسے خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی نو سے دس نشستیں مل سکتی تھیں۔ اور یوں وہ اٹھائیس یا انتیس سیٹوں کے ساتھ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آتی۔ تاہم اب منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ آئینی بنچ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں موجود تمام چھبیس مخصوص نشستیں جے یو آئی (ف)، نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو مل گئی ہیں۔ یوں جہاں خیبرپختونخوا میں اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، وہیں پی ٹی آئی کو سینیٹ الیکشن میں بھی دھچکا لگے گا۔

دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کے ارکان توڑنے کی تو حکومت کو ضرورت نہیں رہی، البتہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ارکان پر اس کی نظر یقینی ہوگی۔ پی ٹی آئی کے حمایت سے الیکشن جیتنے والے خیبرپختونخوا اسمبلی کے پینتیس ارکان نے اب تک اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے، اگر اپوزیشن انہیں اپنے ساتھ ملا لیتی ہے تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔

نئی صورت حال میں یہ پینتس ارکان ٹرمپ کارڈ کی حثیت اختیار کرگئے ہیں۔ اگر یہ ارکان گنڈاپور حکومت سے راستے جدا کرلیتے ہیں تو پی ٹی آئی کی حکومت خود بخود گر جائے گی۔ کیوں کہ اس وقت وزیر اعلیٰ گنڈا پور کو ترانوے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے پینتیس نکل جاتے ہیں تو پیچھے صرف اٹھاون ارکان رہ جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں صوبائی حکومت ایوان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے گی۔ کیونکہ سادہ اکثریت سے بھی حکومت بنانے کے لیے تہتر ارکان کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب مخصوص نشستیں ملنے کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد ستائیس سے بڑھ کر تریپن ہو گئی ہے۔ اسے صوبائی حکومت گرانے کے لیے مزید اکیس ارکان کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پینتیس میں سے مطلوبہ تعداد میں ارکان اس کے ساتھ مل جائیں۔ غرض یہ کہ مخصوص نشستوں سے متعلق آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اندازہ ہو جائے گا کہ اس فیصلے کی کس قدر جہتیں ہیں اور حکومت اس سے کیا، کیا فائدے اٹھائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔