دل کی صحت کے خاموش دشمن یورک ایسڈ سے کیسے بچا جائے؟

حال ہی میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یورک ایسڈ، جسے عام طور پر صرف گٹھیا (گاؤٹ) سے جوڑا جاتا ہے۔
جب لوگ یورک ایسڈ کی بات کرتے ہیں تو فوراً گاؤٹ یعنی جوڑوں کے درد اور خاص طور پر انگوٹھے کے شدید درد کا خیال آتا ہے۔

برسوں تک یورک ایسڈ کو صرف گٹھیا سے جوڑا گیا، لیکن اب نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔
یورک ایسڈ دراصل خاموشی سے دل کے اچانک دورے اور میٹابولک سنڈروم جیسے سنگین مسائل میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔
یورک ایسڈ جسم کا ایک قدرتی فضلہ ہے جو پیورین (purines) نامی مادے کے ٹوٹنے کے بعد بنتا ہے، جو کچھ خاص کھانوں اور مشروبات میں پایا جاتا ہے۔
جب یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے، تو یہ چھوٹی شریانوں (microvascular disease) کو متاثر کر سکتا ہے۔
اس سے دل تک آکسیجن کی فراہمی میں رکاوٹ آ سکتی ہے اور نتیجتاً ایک اچانک دل کا دورہ ہو سکتا ہے۔
میٹابولک سنڈروم کئی مسائل کا مجموعہ ہے۔ خون میں شوگر کی زیادتی، پیٹ کی چربی، ہائی بلڈ پریشر، اور کولیسٹرول کی خرابی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یورک ایسڈ شاید اس کا آغاز کر سکتا ہے، کیونکہ یہ انسولین ریزسٹنس کا سبب بنتا ہے، جو میٹابولک سنڈروم کا اہم جزو ہے۔

یورک ایسڈ کی سطح بڑھنے کی وجوہات میں شامل ہیں۔ پانی کی کمی: ہلکی سی پانی کی کمی یورک ایسڈ کی سطح بڑھا سکتی ہے۔ زیادہ ڈائیٹنگ : جب جسم کو خوراک نہیں ملتی، تو یہ اپنے ہی ٹشوز کو توڑ کر زیادہ پیورین پیدا کرتا ہے۔ نیند کی بیماریاں: سلیپ اپنیا جیسے حالات آکسیڈیٹو اسٹریس کو بڑھا کر یورک ایسڈ کی زیادتی پیدا کرتے ہیں۔ چھپی ہوئی چینی: پیک شدہ اشیاء میں موجود ہائی-فرکٹوز کارن سیرپ یورک ایسڈ کی سطح کو بڑھا دیتا ہے۔
دن کا آغاز سادہ پانی سے کریں تاکہ گردے یورک ایسڈ کو مؤثر طریقے سے خارج کر سکیں۔
کھانے کے بعد تھوڑی چہل قدمی یورک ایسڈ کی سطح کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔
کدو کے بیج، پالک اور بادام جیسے کھانے سوزش کم کرتے ہیں اور یورک ایسڈ کو متوازن رکھتے ہیں۔
زیادہ نمک یورک ایسڈ کو جسم میں روک دیتا ہے۔ مناسب مقدار میں ناریل کا پانی یا کیلا استعمال کر سکتے ہیں۔
آہستہ سانس لینے یا مراقبہ (meditation) کی مشق یورک ایسڈ کی زیادتی کو کم کرتی ہے اور دل کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یورک ایسڈ کو صرف ایک عدد کے طور پر نہ دیکھیں، بلکہ اسے جسم کے اندر جاری دباؤ یا میٹابولک تناؤ کی علامت سمجھیں۔
یہ مضمون صرف معلوماتی مقصد کے لیے ہے، کسی بھی قسم کی خوراک، دوا یا طرزِ زندگی میں تبدیلی سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کریں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔