ماڈل کی کامیابی سے حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی، فائل فوٹو
 ماڈل کی کامیابی سے حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی، فائل فوٹو

قیدیوں کی تربیت میں پنجاب بازی لے گیا

نواز طاہر:
ملک بھر کی جیلوں میں اسیروں کی تربیت کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات میں پنجاب سرفہرت اور بلوچستان چوتھی پوزیشن پر ہے۔ دو سال کے دوران تقریباً ایک لاکھ اسیروں کی تربیت کی گئی اور امسال ہدف ایک لاکھ قیدیوں کی تربیت ہے۔ اس ضمن میں پنجاب میں پروبیشن اینڈ پیرول سورس ہیڈ کوارٹرز میں باقاعدہ کمپلیکس قائم کردیا گیا ہے اور تربیت کی ذمہ داری خاص طور پر ایمرجنسی سروسز ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو (1122) کو سونپی گئی ہے۔

پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول سروسز کے کمپلیکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر صوبائی سیکریٹری داخلہ ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں جو اعدادوشمار سامنے لائے گئے ہیں، ان کے مطابق صوبہ بھر کے 45 ہزار سے زائد پروبیشنرز سے کمیونٹی سروس کروائی جائے گی۔ دو برس کے دوران 92 ہزار سے زائد قیدیوں کی تربیت کی گئی۔ ملک بھر میں ان پروبیشنرز میں سے نوّے فیصد کا تعلق پنجاب اور باقی دس فیصد کا تعلق دیگر تین صوبوں سے ہے۔

پیش رفت و جائزہ اجلاس میں پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول سروسز کے ڈائریکٹر جنرل شاہد اقبال نے اسیروں کے ساتھ ساتھ اپنے افسروں کی تربیت کے بارے میں بھی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پروبیشن اینڈ پیرول سروس افسران کی تربیت لمز اور نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی جیسے اداروں سے کروا رہے ہیں۔ جبکہ افسروں کیلئے عالمی معیار کی تربیت کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب میں قانون سازی کے تحت اسیروں کو پروبیشنرز کمیونٹی سروس کا قانونی حق اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ زیر حراست افراد میں پروبیشنرز ایسے قیدی ہوتے ہیں یا انہیں شمار کیا جاتا ہے، جنہیں رہا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ان کا اسیری کے دوران رویہ بہتر ہوچکا ہوتا ہے یا ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں جن کی رو سے انہیں سخت سزا نہیں دی جاتی۔ بلکہ اس کا مقصد اصلاح کے معنی میں آتا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ نظام رائج ہے۔ جسے پاکستان میں بھی اصلاحات کے تحت رائج کیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ کے ترجمان کے مطابق پروبیشنرز ایسے حادثاتی مجرمان ہیں، جن کی اصلاح کیلئے عدالت سزا ملتوی کر کے پروبیشن پر رہا کرتی ہے اور محکمہ داخلہ کے ترجمان کے مطابق حکومت پنجاب نے پروبیشنرز کیلئے کمیونٹی سروس ماڈل متعارف کروایا ہے۔ جس کے تحت محکمہ مختلف تربیتوں کے ذریعے مجرمان کی بحالی کے اصلاحی پروگرام چلاتا ہے۔ پروبیشنرز کو ریسکیو 1122 کے ذریعے سی پی آر اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح درخت لگانے کی مہم باقاعدگی سے منعقد کی جاتی ہے۔ جس میں پروبیشنرز شامل ہوتے ہیں۔ ٹویوٹا کے تعاون سے تکنیکی مہارت کی تربیت دی جاتی ہے۔

مجرمانہ رویے میں تبدیلی کیلئے انفرادی اور گروپ مشاورتی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں۔ اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ فائر سیفٹی، ٹریفک آگاہی اور آبادی کی بہبود کے سیشنز شہری احساس کو بڑھاتے ہیں۔ قانونی خواندگی کے سیشن ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ خواتین پروبیشنرز کو خصوصی مدد فراہم کی جاتی ہے۔

نئے قانون کے تحت عدالتی حکم ہی میں پروبیشنرز کی قابلیت کے مطابق کمیونٹی سروس متعین کی جا رہی ہے۔ عدالتی حکم میں ہر پروبیشنر کیلئے مخصوص کمیونٹی سروس اور مدت درج ہوتی ہے۔ اجلاس میں سیکریٹری داخلہ نے ہدایت کی کہ کمیونٹی سروس کیلئے پروبیشنرز کو متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کیساتھ منسلک کیا جائے۔ تعلیم یافتہ پروبیشنرز سے ٹیچنگ، جبکہ تکنیکی مہارت رکھنے والوں سے ان کی مہارت کے مطابق کام لیا جائے۔ انہوں نے پروبیشن افسران کو بھی ہدایت کی کہ مجرمان کی پروفائل کے مطابق موزوں کمیونٹی سروس کا تعین کرنے میں عدالت کی معاونت کریں۔

مجوزہ کمیونٹی سروس ماڈل کی بدولت پروبیشنرز نہ صرف معاشرے کے مفید شہری بنیں گے، بلکہ کمیونٹی سروس ماڈل کی کامیابی سے حکومت پنجاب کو سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں صوبائی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے ہر شخص کو مجرمانہ ذہنیت کا حامل یا عادی مجرم تصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی حادثاتی جرم کرنے والوں کو عادی مجرموں کے ساتھ رکھنا مناسب ہے۔ جیل اصلاحات سے اور پروبیشنرز کو کیموٹنی سروسز میں شامل کرنے سے یہ مجرمانہ زہنیت سے بھی بچ جائیں گے اور معاشرتی بہتری کے کاموں میں بھی استعمال ہوسکیں گے۔

اس ضمن میں انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتوں کی معاونت کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ اسیروں کو پروبیشن میں لایا جاسکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ غزوہ بدر کے موقع پر قیدیوں سے تدریس کا کام لیا گیا اور یہ بہترین نمونہ ہے اور اسے سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جس کے بہترین نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔