بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آگیا ہے جس میں انہوں نے بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے ”سزا“ قرار دیا ہے۔
ویڈیو بیان میں بانو کی ماں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بیٹی کو ایک لڑکے کے ساتھ تعلقات پر بلوچی معاشرتی جرگے کے فیصلے کے بعد سزا دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکا آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بناتا تھا جس سے اُن کے بیٹے مشتعل ہو جاتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بیٹی بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور اس کا سب سے بڑا بیٹا 16 سال کا ہے۔
بیان میں مقتولہ کی والدہ نے کہا، ’ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، یہ فیصلہ بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا تھا۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور جرگہ میں جو فیصلہ ہوا، وہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچی جرگے میں ہوا۔
انہوں نے اپیل کی کہ سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
دوسری جانب ساتکزئی قبیلے کے گرفتار سربراہ سردار شیرباز خان ساتکزئی نے گرفتاری سے قبل بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے اس الزام کو مسترد کی اتھا۔
رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ میری سربراہی میں ’کوئی جرگہ منعقد نہیں ہوا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’گاؤں کی سطح پر ہی لوگوں نے دونوں کو مارنے کا فیصلہ کیا۔‘
اس واقعے نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے جہاں بانو کے قتل کو ”روایتی غیرت“ کی آڑ میں ہونے والے ظلم کی ایک اور سنگین مثال قرار دیا جا رہا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos