فائل فوٹو
فائل فوٹو

ارمغان کیخلاف منی لانڈنگ کیس میں اہم پیشرفت

عمران خان :

مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان سمیت دیگر ملزمان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ایف آئی اے نے حتمی چالان پر کام تقریباً مکمل کرلیا ہے۔ تاہم عدالت عالیہ میں دائر پٹیشن پر فیصلہ آنے کے بعد ہی یہ چالان رپورٹ ایف آئی اے زونل بورڈ کی منظوری کے بعد عدالت میں جمع کروائی جاسکے گی۔ اہم ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ یہ بھی امکان موجود ہے کہ جن ملازمین کے ناموںپر اکائونٹ کھلوا کر ارمغان نے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کیں، انہیں کیس مضبوط بنانے کے لئے وعدہ معاف گواہ بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کا فیصلہ صورتحال کو دیکھ کر کیا جائے گا کہ اگر ان کے بغیر ہی مضبوط اور ٹھوس شواہد پر مشتمل کیس بن سکے گا تو ان ملازمین کو بھی شریک ملزم ہی قرار دیا جائے گا۔

اس سے قبل ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس پر ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل میں مقدمہ درج کرنے کے بعد عدالت میں حتمی چالان اور پیش رفت رپورٹ جمع کروادی گئی تھی جس میں ارمغان کے ساتھ ہی اس کے والد اور دوست کو بھی شریک ملزم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ جبکہ ارمغان کی جانب سے آن لائن دھوکہ دہی سے کمائی گئی جرم کی رقم یعنی کالے دھن سے بنائے گئے اثاثے بشمول لگژری گاڑیاں اور جائیدادوں کا ڈیٹا جمع کرکے انہیں کیس کا فیصلہ آنے تک منجمد کروادیا گیا تھا۔ تاکہ بینک اکائونٹس میں موجود رقم اور اثاثوں کی منتقلی نہ کی جاسکے اور نہ ہی ملکیت تبدیل کی جاسکے۔

ایف آئی اے تاحال مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اس کے ڈیجیٹل والٹ تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری جانب ان تحقیقات میں پہلے شامل تفتیش کئے جانے والے ملزم کے والد کامران قریشی اور افنان کو بھی باقاعدہ ملزمان کی حیثیت سے منی لانڈرنگ کیس میں نامزد نہیں کیا گیا۔ اب ملزم کے ذاتی استعمال میں رہنے والے لیپ ٹاپ کی سکیورٹی توڑنے اور اس میں سے ڈیجیٹل والٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے پنجاب فارنسک لیبارٹری بھجوانے کی منظوری لے لی گئی ہے۔ ساتھ ہی ملزم ارمغان سے جسمانی تفتیش کے لئے ایف آئی اے کو 9 دنوں کی مزید رسائی دے دی گئی۔

موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان کے حوالے سے ایف آئی اے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ وہ ماہانہ تقریباً 4لاکھ ڈالر یعنی 11کروڑ روپے آن لائن فراڈ کے ذریعے کمارہا تھا۔ اس پیسے کو کرپٹو یعنی ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل کرلیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں وہ وہ امریکہ میری لینڈ میں رجسٹرڈ کروائی گئی کمپنی استعمال کر رہا تھا۔ جبکہ پاکستان میں اپنے کال سینٹرز اور دیگر روز مرزہ اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنے دو ملازمین رحیم بخش اور عبدالرحیم کے ناموں پر کھلوائے گئے اکائونٹس کے ڈیبٹ کارڈز کے ذریعے کرتا تھا۔ یہ کارڈز اس نے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔

تحقیقات میں اب تک ملزم کی 15کروڑ روپے مالیت کی گاڑیوں کا سراغ لگا کر انہیں منجمد کردیا گیا ہے جوکہ فراڈ سے کمائی گئی رقوم سے خریدی گئیں۔ جس پررواں برس مارچ میں کے آخر میں ایف آئی اے منی لانڈرنگ سرکل کراچی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ ارمغان کے خلاف اب تک 10واں مقدمہ تھا۔ اس مقدمہ میں ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی کو بھی نامزد کرکے شامل تفتیش کیا گیا۔ تاہم اب عدالت میں پیش کی جانے والی پیش رفت رپورٹ میں ملزم کے والد کامران قریشی اور افنان کو نامز د نہیں کیا گیا۔ جس کے پس منظر کے حوالے سے ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ ملزمان انتہائی ہوشیاری سے کام کرتے رہے ہیں اس لئے بغیر ٹھوس شواہد کے مزید ملزمان کوباقاعدہ نامزد کرنے سے مقدمہ خراب ہوسکتا ہے اور مرکزی ملزم کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے بھاری بھرکم مالیت کے وکیلوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہے۔

ایف آئی اے کے تحت تحقیقات کا آغاز ہونے کے بعد ملزم ارمغان کی رہائش گاہ پر چلائے جانے والے کال سینٹر میں کی جانے والی کارروائی میں 18 لیپ ٹاپس کے ساتھ مختلف دستاویزات بھی قبضے میں لی گئیں اور ملزم کے ملازمین کو بھی طلب کرکے تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی جن کے بیانات کو کیس کا حصہ بنایا گیا۔ اس چھان بین میںمذکورہ کال سینٹر اور لیپ ٹاپس سے دنیا بھر شہریوں کے کاروبار کا ڈیٹا رکھنے والی بین الاقوامی کمپنیوں یونائیڈ اسٹیٹ پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آرگنائزیشن اور ورلڈ انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے حوالے سے ایسے اسکرپٹ ملے جو کال سینٹرز کے ملازمین کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کی معلومات حاصل کرنے اور ان سے فراڈ کرنے کے لئے استعمال کئے جارہے تھے۔

تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ کال سینٹر کے ملازمین ملزم ارمغان کی ہدایات پر خود کو ان دو امریکی کمپنیوں کا نمائندہ ظاہر کرکے غیر ملکی شہریوں سے ان کے بینک اکائونٹس، ان کی کمپنیوں اور کاروبار کے ساتھ ذاتی ڈیٹاکی معلومات حاصل کرلیا کرتے تھے اور ان متاثرین کے بینک کارڈز سے بٹوری گئی رقوم کو ارمغان کے اکائونٹس میں منتقل کردیا کرتے تھے۔

ارمغان کی جانب سے ڈیجیٹل راڈ اور منی لانڈرنگ کے طریقہ کار کے حوالے سے کی گئی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ارمغان نے اپنے کیریئر کا آغاز 2015ء سے معروف زمانہ ایگزیکٹ سافٹ ویئر ہائوس ، بعد ازاں ڈی جی ایکس پرائیویٹ لمیٹڈ اور آئی بیکس میں کام کرتے ہوئے کیا۔ اس کے بعد جب اس نے اپنا ذاتی کام کرنے کا سوچا تو اس سے پہلے ہی کی گئی منظم منصوبہ بندی کے تحت اس نے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے ’’ڈبہ کال سینٹر‘‘ چلانے کی پلاننگ کی۔ جس کے تحت اس نے2018ء میں امریکی شہر میری لینڈ میں آئیڈا کمیونیکیشن ایل ایل س ( AIDA) کے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کی اور اس کو امریکہ میں ہونے والا کورابر ظاہر کرکے کراچی میں اپنے گھر سے چلاتا رہا۔