سیلاب دوبارہ آیا تو ڈربہ نما گھر بہہ جائیں گے، فیکٹ فائنڈنگ مشن کا انکشاف
 سیلاب دوبارہ آیا تو ڈربہ نما گھر بہہ جائیں گے، فیکٹ فائنڈنگ مشن کا انکشاف

سندھ کے سابق سیلاب متاثرین قرض میں ڈوب چکے

نواز طاہر:
دریائوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مقدار اور مزید شدید بارشوں کے امکانات کے پیشِ نظر ملک میں سیلاب کے خدشات بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب سندھ میں تین سال پہلے آنے والے سیلاب کے متاثرین خاص طور پر بے گھر ہونے والوں کی امداد کے بجائے، ان کا استحصال کرتے ہوئے عالمی بینک کی نگرانی میں مقروض کردیا گیا ہے۔ اور اگر خدانخواسہ خدشات کے مطابق اس مرتبہ بھی سیلاب آیا تو یہ متاثرین ایک بار پھر بے گھر ہوجائیں گے اور ان پر قرض بھی برقرارہے گا۔

یاد رہے کہ سنہ دو ہزار بائیس میں ملک بھر میں سیلاب کی تباہی کے دوران متاثرین کی امداد کا اعلان کیا گیا تھا اور سندھ کی حکومت نے بے گھر ہونے والوں کے گھر آباد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اب بھی یہ دعویٰ برقرار رکھا ہے کہ اس نے بے گھر ہونے والوں کو ہزاروں گھر بنا کر آباد کردیا ہے۔ ساتھ ہی سندھ حکومت کا سیلاب متاثرین کی مرکز سے ملنے والی امدادی رقم نہ ملنے کا شکوہ بھی بارہا دہرایا گیا ہے۔ لیکن سندھ میں حقیقی صورتحال اس کے برعکس سامنے آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جن غریبوں کے گھر سیلاب کا پانی بہا لے گیا تھا، انہیں سندھ حکومت نے حکومتی مالی امدادی پیکیج کے تحت گھر بنا نے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ نہ تو حکومت نے ان کی مدد کی نہ ہی دوسرے ملکوں نے امداد کے وعدے پر عملدرآمد کیا۔ بلکہ انہیں ایک کمرے کا گھر بنانے کے لئے قرض جاری کیے گئے ہیں اور یہ قرض بھی عالمی بینک دے رہا ہے جس کی براہ راست نگرانی بھی وہی کرہا ہے اور وصولی بھی اسی نے اپنے طے شدہ طریقِ کار کے مطابق کرنی ہے۔

سندھ کے سیلاب سے بے گھر ہونے والوں کی امداد کا جائزہ لینے کے لئے وہاں کا دورہ کرنے والے ایشیین فار ہومن رائیٹس کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ متاثرہ افراد کی بحالی کا عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بنا ہے۔ جبکہ یہ عمل ملک کے آئین اور بین الاقوامی وعدوں میں طے شدہ بنیادیاصولوں کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کے مطابق مشن نے سندھ کے تین اضلاع شکار پور ، نواب شاہ اور لاڑکانہ کا دورہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ سیلاب اور اس جیسی موسمیاتی آفات کے خلاف حکومتی اقدامات ملک کے دستور میں درج بنیادی انسانی حقوق کے ضوابط اور حکومت کے بین الاقوامی وعدوں کے معیار پر پورے نہیں اترے ۔ اس کمی نے خاص طور پر ان لوگوں کو نقصان پہنچایا جو پہلے سے ہی رائج سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی وجہ سے مسائل کا شکار تھے۔ مشن کی رپورٹ کے مطابق پڑتال کے دوران معلوم ہوا کہ موسمیاتی آفات کے نظم و نسق میں عدم مساوات کا ایک بڑا سبب صوبے میں رائج جاگیردارانہ نظام کا ڈھانچہ ہے جو سیلاب سے نمٹنے کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوا۔ مبینہ طور پر ضلع نواب شاہ میں بااثر جاگیرداروں کی املاک کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے دریائی بند کاٹے گئے جس سے سیلاب نے غریب بستیوں کو ڈبویا۔

کچھ پریشان حال آبادیاں سرکاری امدادی کارروائیوں سے یکسر غائب کردی گئیں۔ جیسا کہ نواب شاہ کی یونین کونسل چنیسر میں واقع عثمان بروہی گوٹھ جیسے پورے گائوں کو حکومتی جانچ یا امداد نہیںملی۔ اس طرح ان کے تحفظ اور بحالی کے بنیادی حقوق یکسر مسترد ہوئے۔ رپورٹ میں ضلع شکار پور میں سولہ ضرب اٹھارہ فٹ کے ایک گھر ( مکان ) حوالہ دیا گیا ہے جہان ایک شخص دو بیویوں اور نو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ جبکہ یہ کمرہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کی ہائوسنگ اسکیم ’ سندھ پیپلز ہائوسنگ اسکیم فار فلڈ افیکٹیز‘ کے ذریعے فراہم کیا گیا اور بنیادی طور پر ورلڈ بینک اور اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے فنڈ کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بے زمین کاشتکار جو متاثرین کی اکثریت پر مشتمل ہیں ، رہائشی سہولیات سے محروم رہے کیونکہ ہائوسنگ پروگرام میں شمولیت کے لئے زمین کے کاغذات لازم تھے۔ جبکہ زبانی معاہدوں کے نظام میں ایسی دستاویزات کا حصول ناممکن ہے۔ جبکہ یہ سب ایسے مالیاتی ڈھانچے کے اندر ہورہا ہے جہان متاثرہ افراد کی بحالی کی فنڈنگ معاوضے کے ذریعے نہیں کی جارہی۔ بلکہ قرضوں کے ذریعے کی جارہی ہے، اس طرح آنے والی نسلوںپر قرضے کی ادائیگی کا بوجھ آنے والی نسلوں پر ڈالا جارہا ہے جو دہائیوں تک برقرار رہے گا۔

سیلاب متاثرین کو گھر بنانے کا سندھ حکومت کا دعویٰ یکسر مسترد کرتے ہوئے فیکٹ فائندنگ مشن کے رکن فاروق طارق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’متاثرین کو گھر بنانے کیلئے چار اقساط میں تین لاکھ روپے قرض دیا گیا۔ اتنی رقم میں صرف ڈربہ نما ایک کمرہ بنایا جاسکتا ہے اور مجبور انسانوں نے اتنا ہی قرض دیگر ذرائع سے حاصل کرکے بنیادی سہولتوں سے محروم ایسے مکان بنائے ہیں جو گھر نہیں کہلا سکتے۔ ہم سندھ حکومت کا سیلاب متاثرین کو حکومت کی طرف سے گھر بنانے کا دعویٰ یکسر مسترد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کسی بیرونی ادارے کو پاکستان کے اندر اپنی نگرانی اور انتظام میں افراد کو قرض دینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، جیسے ان متاثرین کو دیا گیا اور قرض کے بوجھ تلے دبایا گیا۔ جبکہ ان کی امداد حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سیلاب کے دوران متعدد ملکوں نے امداد کا اعلان کیا مگر یہ امداد بھی ان متاثرین کو تاحال نہیں ملی۔ اگر خدانخواستہ اب سیلاب آیا تو یہ ڈربے نما مکان پھر سے پانی میں بہہ جائیں گے۔ کوئی بھی مکان پانی کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ کاشتکاروں اور خاص طور پر ہاریوں کی کوئی امداد نہیں ہوسکی اور وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، فصلوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زمین کے مالک کے بجائے اسے کاشت کرنے والے کی امداد کی جائے۔ ہاری کے نام پر کوئی زمینی ملکیت کی دستاویز نہ ہونے سے وہ محروم ہوجاتا ہے۔‘‘