اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی نظام کو مؤثر اور شفاف بنایا جا رہا ہے، جبکہ مقدمات کو جلد نمٹانا عدلیہ کی اولین ترجیح ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نئے عدالتی سال کے آغاز کا یہ سلسلہ 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا اور 2004ء سے اسے باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔ یہ موقع کارکردگی کا جائزہ لینے اور اصلاحات پر غور کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ریفارمز کی ضرورت محسوس کی گئی اور پانچ بنیادوں پر اصلاحاتی عمل شروع کیا گیا، جن میں ٹیکنالوجی، سروس ڈیلیوری، شفافیت اور قانونی فریم ورک کو خاص اہمیت دی گئی۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ اب تک چھ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جن میں ڈیجیٹل کیس فائلنگ اور ٹریکنگ سسٹم جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں موجود 8 سیکشنز انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 61 ہزار فائلوں کو ڈیجیٹل اسکین کیا جائے گا، جو چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد کیسز کی سماعت کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کیا جائے گا، تاہم ابھی عدلیہ اس نظام کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ فیسیلیٹیشن سینٹر یکم اکتوبر سے فعال ہو جائے گا، جہاں شہریوں کو تمام ضروری معلومات فراہم کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں شفافیت انصاف کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے اور ای سروسز کا آغاز اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
سیکیورٹی سے متعلق گفتگو میں چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں ان کے ساتھ 9 گاڑیاں سیکیورٹی کے طور پر موجود رہتی تھیں، مگر اب یہ تعداد کم کر کے صرف 2 کر دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریڈ زون میں غیر ضروری پروٹوکول کم کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ رولز میں ججز کی چھٹیوں کا معاملہ واضح کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ اصلاحات وقت کے ساتھ آگے بڑھیں گی اور کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں مزید اقدامات کیے جائیں گے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos