فوٹو سوشل میڈیا
فوٹو سوشل میڈیا

”’ آئی لو محمد ﷺ ”کا تنازع ، بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آ گیا

 کانپور: اتر پردیش کے  کانپور شہر میں پولیس نے 25 افراد کے خلاف صرف اس لیے معاملہ درج کرلیا کہ انہوں نے ’’ آئی لو  محمدؐ‘ کا بینر لگایا تھا۔ یعنی اب مسلمانوں کو اپنے نبی ؐ کا نام لینے سے بھی روکا جا رہا ہے۔

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں شروع ہونے والا’’ آئی لو محمد ﷺ ‘‘ سے متعلق احتجاج اب کئی ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جس نے مسلم کمیونٹی میں مظاہروں اور جلوسوں کی صورت اختیار کرلی۔

بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش، اتراکھنڈ، تلنگانہ، اور مہاراشٹرا کے شہروں جیسے اناو، بریلی، کوشامبی، لکھن، مہاراج گنج، کشی پور اور حیدرآباد میں اس تنازع کے باعث ریلیاں اور گلی کوچوں میں احتجاج ہوئے، جن میں بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

عید میلاد النبی کے موقع پر ’آئی لوو محمد‘ والا بینر لگانے پر پیدا ہونے والا تنازع اب بڑھ رہا ہے

یہ تنازع 4 ستمبر کو عید میلاد النبی ؐکے جلوس کے دوران کانپور میں شروع ہوا، جب ایک گروپ نے جلوس کے راستے پر I Love Muhammad کا بینر لگایا تھا، جس پر مقامی ہندو گروپوں نے اعتراض کیا کہ یہ ایک نئی رسم ہے جو اس روایتی مقام پر متعارف کروائی جا رہی ہے۔نو ستمبر کو کانپور پولیس نے عید میلاد النبی جلوس کے دوران نئی رسم متعارف کروانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب کرنے کے الزام میں 24 افراد(  9 نامزد، 15 نامعلوم)  کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی نے بینر لگا کر ایک نئی روایت شروع کرنے کی کوشش کی

مقدمے میں روایتی خیمہ ہٹانے اور بینر لگانے کا ذکر شامل تھا۔ڈی سی پی دنیش تریپاٹھی کے مطابق حکومت کے قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسمیں شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کچھ افراد نے روایتی خیمہ ہٹا کر نیا خیمہ اور بینر لگا دیا تھا، جسے پولیس نے روایتی مقام پر واپس کیا۔

دنیش تریپاٹھی کا کہنا تھا کہ بینر کے لیے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔تاہم، دونوں ہندو اور مسلم گروپوں نے ایک دوسرے پر پوسٹر پھاڑنے کے الزامات لگائے، اور پولیس کی کوششوں کے باوجود حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔بعدازاں 15 ستمبر کو آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین  کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ I Love Muhammad کہنا جرم نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو میں اس کے لیے کوئی بھی سزا قبول کرتا ہوں۔

اویسی نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا کہ میں پیغمبر اسلام کے لیے دس لاکھ جانیں قربان کروں گا۔

انہوں نے پولیس کارروائی پر تنقید کی تھی اور کانپور پولیس کو ٹیگ کیا تھا جس سے تنازع مزید بڑھ گیا۔

کانپور میں ایف آئی آر کے بعد ملک کے شہروں میں ائی لو محمد کے پوسٹرز اور بینرز نظر آئے ہیں

کانپور پولیس کا موقف ہے کہ بینر کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، مقدمات صرف اس کے نئے مقام پر لگانے اور دوسرے گروپ کے پوسٹرز کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔ پولیس نے عوام سے غلط معلومات نہ پھیلانے کی اپیل کی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ احتجاج اتر پردیش کے مختلف شہروں جیسے اناو، مہاراج گنج، مہاراج گنج، لکھن، ناگپور، اتراکھنڈ اور دیگر مقامات پر ہوا جہاں متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔

بھارت سماج وادی پارٹی کے ترجمان کے مطابق پولیس کی ناکامی کی وجہ سے احتجاج میں اضافہ ہوا، انہوں نے کہا کہ ہم آزادیِ اظہار کے حق کا دفاع کرتے ہیں چاہے نعرہ I Love Ram ہو یا I Love Muhammad۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ قانون شکنی یا پولیس پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔مذہبی رہنما، جیسے مولانا صوفیان نظامی، جماعت رضا مصطفی، اور ورلڈ صوفی فورم نے تشدد کی مذمت کی، امن اور آئینی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیا۔

 لکھنؤ میں کئی خواتین نے ریاستی اسمبلی کے سامنے ’آئی لوو محمد‘ کا بینر اٹھا کر احتجاج کیا۔

ان خواتین کی قیادت سماج وادی پارٹی کی لیڈر اور نامور شاعر منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے کی۔

لکھنؤ میں مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کے خلاف ریاستی اسمبلی کے باہر ہونے والا احتجاج

سمیہ نے کہا کہ ‘جب مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں تو کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ جب مسلمان اپنے آئینی حقوق کے تحت اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی اظہار اور جذبات کو دبانے کی کوششیں ہیں، جنھیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔