فوٹو بھارتی میڈیا
فوٹو بھارتی میڈیا

لداخ میں پُرتشدد احتجاج، جھڑپوں کے بعد کرفیو نافذ

لیہہ : مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں جین زی کے پرتشد مظاہروں کے بعد انتظامیہ نے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ نے مزید فوج تعینات کردی ۔

لداخ میں بے روزگاری، آئینی تحفظ کی کمی اور جمہوری حقوق کی محرومی کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ جس کے لیے نوجوان بدھ کو سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری املاک اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کو نذر آتش کردیا تھا۔

پُرتشدد مظاہروں کے بعد جمعرات کو لداخ کے علاقوں لیہ اور کارگل میں سخت سیکیورٹی اقدامات نافذ ہیں، پولیس کے ساتھ نیم فوجی دستے بھی بڑی تعداد میں گشت کر رہے ہیں۔

مقامی تنظیموں کی اپیل پر کارگل میں جمعرات کو لوگوں کی بڑی تعداد نے ہڑتال میں حصہ لیا اور رضا کارانہ طور پر اپنی دکانیں اور کاروبار بند کردیا۔

سجاد کارگلی نامی مقامی رہنما نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ طاقت کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کرے، فوری مذاکرات دوبارہ شروع کرے اور عوام کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔

لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کو افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید نقصان سے بچنے کے لیے کرفیو لگایا گیا ہے۔

بدھ کو ہونے والا احتجاج اس وقت شروع ہوا جب جین زی کے مظاہرین نے حقوق کے لیے ریلی نکالی، جسے روکنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی گاڑیوں کو آگ لگا دی اور بی جے پی کے دفتر سمیت کئی سرکاری عمارتوں کو بھی نذر آتش کردیا۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 4 افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان مظاہروں میں کئی سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب کم از کم 40 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔