پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک نے غزہ پر ٹرمپ کا منصوبہ قبول کرلیا

اسلام آباد(امت نیوز) پاکستان ترکیہ اور انڈونیشیا سمیت 8 مسلم ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی کے حوالے سے منصوبہ قبول کر لیا ہے اس منصوبے میں حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی اور غزہ کی تعمیر نو کے نکات بھی شامل ہیں۔ جبکہ یہ اہم نقطہ بھی ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے پر قبضہ نہیں کرے گا اور مغربی کنارے کے علاقے سمیت ایک فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی۔

 

 

اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔

 

یہ اعلامیہ ٹرمپ سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی ملاقات کے ساتھ ہی جاری ہوا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے غزہ کے حوالے سے ان کی تجویز مان لی ہے۔

 

پاکستان سمیت 8 ممالک کے وزائے خارجہ کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وہ "صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی قیادت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی مخلصانہ کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس بات پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ امن کی راہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔”

 

ان وزرائے خارجہ نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔

 

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ "اسی تناظر میں وزرائے خارجہ صدر ٹرمپ کے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں انہوں نے جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیرِ نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی کی روک تھام اور ایک جامع امن منصوبے کو آگے بڑھانے کی تجویز دی ہے، نیز ان کے اس اعلان کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں کہ وہ مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دیں گے۔

 

"وزرائے خارجہ اپنے اس عزم کی توثیق کرتے ہیں کہ وہ امریکہ اور دیگر فریقین کے ساتھ مثبت اور تعمیری انداز میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں تاکہ معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے اور اس کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے، اس انداز میں جو خطے کے عوام کے لیے امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنائے۔

 

"وہ اپنے اس مشترکہ عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے کے ذریعے کام کریں گے، جو غزہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مناسب امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی، فلسطینی عوام کی بے دخلی نہ ہونے، یرغمالیوں کی رہائی، ایک ایسے سلامتی کے طریقہ کار کی ضمانت جو تمام فریقین کے تحفظ کو یقینی بنائے، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیرِ نو اور ایک منصفانہ امن کی راہ ہموار کرے، جو دو ریاستی حل کی بنیاد پر ہو۔ اس کے تحت غزہ مکمل طور پر مغربی کنارے کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست میں ضم ہو جائے گا، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق خطے میں استحکام اور سلامتی کے قیام کی کلید ہے۔”

 

 

یاد رہے کہ اسرائیل 1976 کے بعد کے برسوں کے دوران مغربی کنارے یا غرب اردن کے بڑے علاقے پر قبضہ کر چکا ہے اور حالیہ مہینوں میں اس کی جانب سے اس خطے کے باقی حصوں پر قبضوں کی کوشش تیز ہوچکی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ وہ دو ریاستی حل کو تسلیم نہیں کرتے۔

 

دوسری جانب اکتوبر 2023 میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں میں سے کم از کم 47 اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔

 

غزہ کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کا ایک متنازعہ بیان بھی سامنے ا چکا ہے جس میں انہوں نے غزہ کے سمندر کے سامنے والے علاقے کو ایک شاندار ریئل اسٹیٹ میں بدلنے کی بات کی تھی۔

 

 

پیر کے روز نیتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات کے بعد امریکی صدر کے 20 نکاتی منصوبے کو قبول کرنے کا اعلان کیاجبکہ حماس کا کہنا ہے کہ اسے یہ تجویز باضابطہ طور پر نہیں بھیجی گئی۔

 

امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر حماس اس منصوبے پر راضی نہ ہوتے تو اسے ’تباہ کرنے‘ کے لیے نتن ی

اہو ’جو کچھ کرنا ہے‘ وہ کریں گے۔