اسرائیلی فوج کا صمود فلوٹیلا پر حملہ،سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت 200 گرفتار

 دوحہ، اسلام آباد، مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیلی فوج نے غزہ کی طرف امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد سمیت تقریباً 200 کارکنان کو گرفتار کر لیا۔

فلوٹیلا کے ترجمان کے مطابق گرفتار کارکنان 37 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سپین کے 30، اٹلی کے 22، ترکی کے 21 اور ملائیشیا کے 12 شامل ہیں۔ باوجود گرفتاریوں کے، فلوٹیلا کا مشن جاری ہے اور تقریباً 30 کشتیوں کا قافلہ غزہ کے محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق، فلوٹیلا کے جہاز الما سے براہِ راست مناظر میں دیکھا گیا کہ کارکنان انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے لائف جیکٹس پہنے ہوئے انتظار کر رہے ہیں۔ فلوٹیلا میں تقریباً 500 افراد سوار ہیں، جن میں پارلیمنٹیرین، وکلاء اور فعال کارکن شامل ہیں۔

پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان گلوبل صمود فلوٹیلا میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے، اور انہیں اسرائیلی افواج نے جہاز پر چڑھائی کے دوران حراست میں لے لیا۔ مبصر کشتی کے ذریعے گرفتاری کی اطلاع بھی موصول ہوئی۔

اسرائیل کی کارروائی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ سپین، برازیل، کولمبیا، ارجنٹینا، ترکی اور پاکستان میں شہری سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کی کال پاک فلسطین فورم کی جانب سے دی گئی ہے۔

گذشتہ حملے میں 20 اسرائیلی کشتیوں نے 40 سے زائد کشتیوں پر مشتمل فلوٹیلا کو گھیرے میں لیا اور کئی کشتیوں پر پانی کی توپیں چلائیں۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے مطابق، حراست میں لیے گئے کارکنان کو بعد میں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

ترکی کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو دہشت گردی قرار دیا، جبکہ فلوٹیلا کے منتظمین نے اسے جنگی جرم قرار دیا اور کہا کہ فوج نے واٹر کینن سمیت جارحانہ ہتھکنڈے استعمال کیے، تاہم کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔

آئرلینڈ کے وزیر خارجہ نے رپورٹس کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک پرامن مشن تھا جو انسانی تباہی پر روشنی ڈال رہا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلوٹیلا کے کارکنان کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی فرانسسکا البانیزے نے سوال اٹھایا کہ دنیا کے ممالک کیوں غزہ پر اسرائیلی فوجی بحری ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے اقدامات نہیں کر رہے، جب کہ اسرائیل پر عام شہریوں کے خلاف نسل کشی اور قحط پیدا کرنے کے الزامات ہیں۔