طالبان وزیر خارجہ دہلی میں خواتین صحافیوں کے ساتھ بیٹھ گئے

بھارت میں شدید تنقید کے بعد افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے دہلی میں اپنی دوسری پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو شرکت کی اجازت دے دی، ان کا کہنا تھا کہ پہلی تقریب سے خواتین کو خارج کرنا "غلطی” تھی، دانستہ فیصلہ نہیں۔

 

پیر کی صبح بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر میں خواتین صحافیوں کو افغان سفارتخانے میں ہونے والی طالبان وزیرِ خارجہ کی پریس کانفرنس کی اگلی صفوں میں بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے — وہی منظر جو جمعے کی تقریب سے ان کی غیرموجودگی کے باعث تنازع کا باعث بنا تھا۔

 

یہ پریس کانفرنس محض دو دن بعد بلائی گئی، جب دہلی میں طالبان کے پہلے میڈیا سیشن میں خواتین کو داخلے سے روکنے پر زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔

 

امیر خان متقی نے اتوار کے روز وضاحت کی کہ خواتین کو مدعو نہ کرنا غیر ارادی عمل تھا۔ ان کے مطابق:

"جمعے کی پریس کانفرنس مختصر نوٹس پر رکھی گئی تھی، اور شرکاء کی فہرست بہت محدود تھی۔ یہ دراصل ایک تکنیکی غلطی تھی، اس کے پیچھے کوئی نیت نہیں تھی۔”

 

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں خواتین کی صورتحال “صنفی امتیاز کی بدترین مثال” بن چکی ہے، جہاں لڑکیوں کو تعلیم، روزگار اور عوامی زندگی میں شرکت سے سختی سے روکا گیا ہے۔ طالبان حکومت نے خواتین پر مکمل پردے، سفر میں مرد سرپرست اور دیگر سخت شرائط عائد کر رکھی ہیں۔

 

طالبان، جو 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آئے، کا دعویٰ ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کو شریعت اور افغان ثقافت کے مطابق تسلیم کرتے ہیں، مگر مغربی ممالک نے انہی پابندیوں کے باعث ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔

 

متقی جمعرات کو ایک ہفتے کے سفارتی دورے پر بھارت پہنچے، جو روس کے بعد طالبان سے تعلقات بڑھانے والا دوسرا اہم ملک سمجھا جا رہا ہے۔ بھارت اگرچہ طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، مگر کابل میں محدود مشن برقرار رکھے ہوئے ہے اور وہاں انسانی امداد بھی بھیجتا رہا ہے۔

 

جمعے کو متقی نے بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی، جس میں بھارت نے کابل میں اپنا بند سفارتخانہ دوبارہ کھولنے پر غور کرنے کا عندیہ دیا۔

 

تاہم اسی روز افغان سفارتخانے میں ہونے والی پہلی پریس کانفرنس میں صرف مرد صحافیوں کو اجازت ملی، جب کہ خواتین کو دروازے پر روک دیا گیا۔ اس واقعے نے بھارت بھر میں غصہ بھڑکا دیا، اور حکومت پر تنقید کی گئی کہ اس نے اپنی سرزمین پر خواتین کے خلاف امتیاز کی اجازت دی۔

 

کانگریس رہنما راہول گاندھی نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی "بھارتی خواتین کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کے حقوق کے لیے کھڑے

ہونے کے اہل نہیں۔”