فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان کیخلاف کارروائی سے افغان عوام کی اکثریت لاتعلق

امت رپورٹ:
پاکستان اور طالبان کے مابین حالیہ کشیدگی سے افغان عوام کی اکثریت لاتعلق ہے۔ ان میں پشتون اور غیر پشتون دونوں شامل ہیں۔ خاص طور پر غیر پشتون افغان عوام نے طالبان کی جارحیت کو ملک میں افراتفری پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ جبکہ سابق جہادی افغان رہنمائوں اور سابق کابینہ کے ارکان نے ٹی ٹی پی کو پناہ دینے سے متعلق افغان طالبان کی پالیسی کو علاقائی امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

قومی مزاحمتی محاذ کی علما کونسل کے سربراہ مولوی حبیب اللہ حسام مہاجر نے طالبان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے جواب میں جنگ میں افغان عوام کی غیر جانبداری کو {{مہذب اور باشعور قرار دیا ہے۔ انہوں نے فیس بک پوسٹ میں لکھا: ’’جب اتنی عظیم تہذیب، ثقافت اور تاریخ کی حامل سرزمین اور باوقار اور گہری جڑیں رکھنے والی قوم پراکسی گروہ کے قبضے میں آجائے اور اس وطن کے مالکان اپنی تقدیر خود طے کرنے میں اجنبی ہوں تو انہیں فطری طور پر کسی بھی سیاسی کھیل کے خلاف غیر جانبداری کا اعلان کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘ مولوی حسام نے اس غیر جانبداری کو کمزوری نہیں بلکہ ’’ایک مظلوم قوم کی بیداری اور احتجاج کی پکار‘‘ قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے ایک ایسی قوم جو اب علاقائی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا شکار نہیں بننا چاہتی۔ لہٰذا اس جنگ کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مہاجرین امور کے سابق افغان وزیر نور رحمان اخلاقی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا ’’پاکستان کے ساتھ طالبان کی جنگ افغانستان کے لوگوں کی جنگ نہیں ہے۔ ملک کے اندر افغان عوام کا اصل دشمن، دہشت گرد اور رجعتی گروہ طالبان ہی ہے۔ جس نے افغان سیکورٹی فورسز کے ایک لاکھ سے زائد ارکان کو شہید کیا اور شرمناک دوحہ معاہدے پر دستخط کرکے ایک منتخب حکومت کو گرایا۔ انہوں نے لڑکیوں اور خواتین کو ہر چیز سے محروم کر دیا، فیصلہ سازی میں لوگوں کے کردار کو صفر کر دیا۔ افغانستان کو دہشت گردی کی افزائش گاہ اور اس سرزمین کے باشندوں کے لیے ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے اور جھوٹی ’’قوم پرستی‘‘ اور ’’نسلیت‘‘ کی آڑ میں قاتلوں کے پروپیگنڈے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے اور جھوٹے بیوروکریٹس اور دانشوروں کے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہیے جن کے ذہن نسلی نفرت اور تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی، جہالت اور ظلم کی حمایت کرنا حب الوطنی نہیں ہے۔‘‘ نور رحمان اخلاقی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ایک دہشت گرد اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی تحریک ہے جس نے ایک جائز حکومت کا تختہ الٹ کر عوام پر جبر پر مبنی آمرانہ حکومت مسلط کی ہے۔ یہ گروہ بیس سے زائد دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ ہے اور اس نے ان کی بھرتی، تربیت اور منصوبہ بندی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔
افغانستان کی نیشنل اسلامک موومنٹ کے رہنما اور سابق صدر عبدالرشید دوستم نے سوشل نیٹ ورک ایکس پر شائع ہونے والے ایک پیغام میں طالبان کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس گروپ کو افغانستان اور خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی اسلامی اتحاد پارٹی کے رہنما اور سابق جہادی رہنما محمد محقق کا کہنا ہے کہ طالبان نے دہشت گرد گروہوں کی میزبانی کر کے افغانستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ محمد محقق نے طالبان کی چار سالہ کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس گروپ پر دہشت گردی کی حمایت اور افغانستان اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگایا۔ دوسری جانب افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح نے ایک بار پھر طالبان کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی سرزمین پر چند گولیاں برسانے اور چند مارٹر فائر کرنے سے اس گروہ کی خونیں تاریخ نہیں مٹ سکتی۔