امریکہ میں ہفتہ 18 اکتوبر کو تقریبا 2700 مقامات پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ‘بادشاہث’ کیخلاف مظاہرے کیے گیے جنہوں نے 1960 کے امریکی سول رائٹس مظاہروں کی یاد تازہ کردی ہے۔
نو کنگز (No Kings) مظاہرے ایک منظم، ملکی سطح کی تحریک ہیں جن کا مرکزی مقصد صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پالیسیوں کے خلاف عوامی احتجاج کو یکجا کرنا اور "آمرانہ اختیارات” کے خلاف شعور بیدار کرنا ہے۔
اس تحریک کا نام اس نقطے پر مبنی ہے کہ "امریکہ میں بادشاہت نہیں ہوتی” — یعنی سیاسی طاقت عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، اور کسی فرد یا چھوٹی حلقے کو مطلق اختیار نہیں دیا جانا چاہیے۔ یہ احتجاج جون 2025 میں بڑے پیمانے پر شروع ہوا اور بعد میں (خصوصاً 14 جون، 2025 اور 18 اکتوبر، 2025 کے دنوں) دوبارہ منظم بڑے مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا۔
نو کنگز مظاہرے ملک کے ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں منعقد کیے گئے — نیویارک، لاس اینجلس، شکاگو، پورٹ لینڈ، سیاٹل، اٹلانٹا اور واشنگٹن ڈی سی سمیت لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اکتوبر 18، 2025 کی لہر میں متعدد رپورٹوں کے مطابق 2600 سے زائد مقامات (کچھ رپورٹس میں 2,500–2,700+ کی حد تک) پر ایک ہی دن مظاہرے ہوئے، اور شریکوں کی مجموعی تعداد لاکھوں میں بتائی گئی۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی طور پر کچھ یورپی شہروں اور کینیڈا میں بھی نمائیندہ مظاہرے رپورٹ ہوئے۔ تنظیمی نقطۂ نظر سے یہ مظاہرے مقامی سطح کی کمیٹیوں، سول سوسائٹی گروپس اور بڑی نیٹ ورکس (مثلاً Indivisible، MoveOn وغیرہ) کے اشتراک سے منظم کیے گئے۔
مظاہروں میں نوجوان کارکنان، فیملیز، ریٹائرڈ لوگ، سابق فوجی، سول سوسائٹی کے کارکن، وکالت کرنے والی تنظیموں (مثلاً ACLU، لیکس وغیرہ) کے نمائندے اور حتیٰ کہ کچھ سابق ریپبلکن بھی شامل تھے جو صدر کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں۔ مظاہروں میں سفید فام شہری بھی بڑے پیمانے پر نظر آئے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی اقدامات اور بیانات نے یہ تاثر پیدا کیا کہ وہ جمہوری اداروں کو کمزور کر کے شخصی حکمرانی یا بادشاہت نما نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے 2020 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، اور اختیارات کو کانگریس کے بجائے صدارتی حکم ناموں کے ذریعے اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھا۔
میڈیا کو "عوام کا دشمن” کہنا، اہلکاروں سے اندھی وفاداری کا مطالبہ کرنا، فوج کو سیاسی بنانے کی کوشش، اور ناقدین کے خلاف انتقامی بیانات دینا ان کے آمرانہ رجحان کی مثالیں سمجھی جاتی ہیں۔
ان رویّوں کے نتیجے میں "نو کنگز” مظاہرے وجود میں آئے، جن کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں، طاقت عوام اور آئین کے ہاتھ میں ہے۔
مظاہرین کے مطالبات اور پیغامات
مظاہرین نے عدلیہ، انتخابی عمل اور میڈیا کی آزادی کو کمزور کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
اختیارات فرد واحد دینے کی کوششوں پر احتجاج کیا گیا۔ فیڈرل اداروں بشمول وزارتِ انصاف، ایجنسیز اور فوجی اداروں کی سیاست سےدور رہنے کا مطالبہ کیا گیا
مظاہرین نے انسانی حقوق اور سول ازادیوں کے تحفظ کا نعرہ لگایا۔ حکومتِ وقت میں مبینہ بدعنوانیوں، سرکاری عہدوں پر لائلٹس کی تقرریوں اور شفافیت کی کمی کے خلاف الزامات عاید کیے۔
ان مظاہروں کی امریکی تاریخ میں اہمیت کیا ہے؟
ایک دن میں ہزاروں جگہوں پر بیک وقت ہونے والے مظاہرے امریکی تاریخ میں بڑے پیمانے کی سیاسی اور سماجی تحریکوں کی یاد دلاتے ہیں انہوں نے 1960s کے سول رائٹس، ویت نام کے خلاف مظاہرے، اور 2017-2020 کے بڑے احتجاجی مظاہروں کی یاد تازہ کردی ہے۔
بہت سے لوگ امریکی جمہوری روایات اور اداروں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نظر آئے۔
نو کنگز مظاہروں پر تنقید بھی ہوئی — کچھ ریپبلکن لیڈرز نے انہیں "ملک دشمن” یا "فریب انگیز” کے القابات دئیے، جبکہ کچھ حلقے فکرمند ہیں کہ ایسی بڑی تحریکیں پولرائزیشن (قطبی تقسیم) اور ریاستی ردِعمل کو اشتعال دے سکتی ہیں۔
ٹرمپ کا جواب
اتوار کو نشر ہونے والے فاکس نیوز پر ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے ریلیوں میں ان پر عائد کیے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔
ٹرمپ نے اس انٹرویو میں کہا کہ ’ایک بادشاہ! یہ کوئی عمل نہیں ہے، آپ جانتے ہو، وہ مجھے بادشاہ کہہ رہے ہیں۔ میں بادشاہ نہیں ہوں۔‘
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos